• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بعض اوقات کوئی واقعہ میں پہلے کہیں بیان کر چکا ہوتا ہوں مگر اسے ’’میری کہانی‘‘ میں بیان کرنا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ ’’میری کہانی‘‘ ادھوری نہ رہ جائے مثلاً مجھے یاد آ رہا ہے کہ اپنے وقت کی بہت عمدہ اور مقبول ترین شاعرہ پروین شاکر کی لاہور آمد پر میں نے اور امجد اسلام امجد نے ان کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں شہر کے کم وبیش سب نامور ادیبوں نے شرکت کی۔ پروین شاکر نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ عشائیے میں ملکہ ترنم کو بھی مدعو کریں وہ ہم سب کی فیورٹ تھیں اور اس تقریب میں ان کی آمد ہم سب کیلئے باعث مسرت تھی چنانچہ انہیں مدعو کیا گیا اور وہ تشریف لائیں بطور میزبان میں کسی مہمان کے پاس تھوڑی دیر کیلئے بیٹھتا اور پھر کسی دوسرے کے پاس چلا جاتا اس طرح میں کچھ دیر کیلئے میڈم نورجہاں کے پاس بھی جا بیٹھا اور ہم دونوں بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے مگر چونکہ میں یکے ازمیزبان تھا تو مجھے دوسرے مہمانوں کو بھی اٹینڈ کرنا تھا چنانچہ میں اٹھ کر پچھلی میز پر چلا گیا جہاں احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، محمد خالد، اختر علی عباس جلالپوری، رشید ملک اور دوسرے اکابر تشریف فرما تھے اس پر مہربان میڈم نے گردن پیچھے کو موڑ کر گپ شپ شروع کر دی اس دوران اشفاق احمد کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے میڈم سے کہا آپ کی گردن کو بل پڑ جائیگا آپ ادھر ہی تشریف لے آئیں چنانچہ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے دوبارہ ان کی صحبت نصیب ہو رہی تھی وہ اس دن بہت چہک رہی تھیں ملکہ پکھراج سے ان کی چشمک تھی چنانچہ باتوں باتوں میں کہنے لگیں ملکہ کی بیٹی طاہرہ سید کا بیان اخبار میں آیا ہے کہ میں ساری عمر اپنی ماں کے سائے تلے رہی ہوں یہ بیان کرکے نور جہاں نے پنجابی میں کہا ’’ہائے وچاری فیر تے ساری عمر دھپ وچ ای سڑی ناں‘‘ یعنی ہائے بیچاری پھر تو ساری عمر دھوپ ہی میں جلتی رہی ناں، جس پر سب نے قہقہہ لگایا اور کچھ دیر بعد اندازہ لگایا کہ میڈم ویسے تو جب موڈ میں ہوں ان کی صحبت میں بیٹھے افراد کے چہروں پر یا تو دائمی مسکراہٹ نظر آتی ہے اور درمیان ہی درمیان میں قہقہے بھی گونجتے ہیں۔ سو اس روز میڈم اس موڈ میں تھیں اور خاص بات یہ تھی کہ کوئی چٹکلہ چھوڑنے کے بعد ہنستے ہوئے میری طرف دیکھتی تھیں اللہ جانے اس کی کیا وجہ تھی؟

پروین شاکر اس شام بہت خوش تھیں میں ان کی ٹیبل پر گیا تو انہوں نے خواہ مخواہ کے تکلف سے کام لیتے ہوئے اس شام کیلئے میرا اور امجد کا بہت شکریہ ادا کیا جو مجھے اچھا نہیں لگا، میں نے کہا پروین آپ سے ہمارا رشتہ محبت کا ہے اور یہ ساری عمر برقرار رہے گا، سو ہم اس خوبصورت شاعرہ کو کبھی فراموش نہ کر سکے جب ایک ٹریفک حادثے میں ان کا انتقال ہوا تو میں اور امجد اسلام آباد گئے وہاں ان کے بارہ تیرہ سالہ بیٹے مراد سے ملاقات ہوئی جسے وہ جوتے خود پہنایا کرتی تھیں اس روز وہ بہت پراعتماد نظر آ رہا تھا اور گھر کے کسی بزرگ کی طرح آنے جانے والوں کو خوش آمدید اور رخصت کر رہا تھا اب وہ اس سرپرستی سے نکل گیا تھا جس میں اس کے جوتے اس کی ماں پہنایا کرتی تھی۔ میڈم نورجہاں کی بات درمیان ہی میں رہ گئی سو دوبارہ ادھر آتا ہوں میں شاید اس وقت چالیس پینتالیس کے پیٹے میں تھا اور میں اس وقت یقیناً کم بدصورت تھاتاہم میڈم بات کرتے ہوئے مجھے مخاطب کرتیں میڈم کو ذرا جلدی جانا تھا چنانچہ میں اور امجد میڈم کو کارتک چھوڑنے ان کے ساتھ گئے ہمارے پیچھے پیچھے اشفاق صاحب بھی تھے کار میں بیٹھتے ہوئے میڈم نے مجھے مخاطب کیا اور کہا آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو اپنے ہاتھ کی پکی بریانی کھلاتی ہوں میں نے میڈم کا بھرپور شکریہ ادا کیا اور کہا میں نے ابھی مہمانوں کو رخصت کرنا ہے میرا وعدہ ہے میں آپ کی بریانی چکھنے ضرور آئوں گا اس پر انہوں نے کہا میں آپ کا انتظار کرونگی آپ میرا فون نمبر لکھیں یہ سن کر امجد بولا میڈم میرے پاس آپکا نمبر ہے میں عطا کو دے دوں گا یہ سن کر میڈم نے امجد کو مخاطب کیا اور پنجابی میں کہا ’’توں اپنا نمبر اپنے کول رکھ عطا صاحب تسی نمبر لکھو ‘‘ (تم اپنا نمبر اپنے پاس رکھو عطا صاحب آپ میرا نمبر لکھیں)۔میں عظیم مغنیہ کے ساتھ گزرا ہوا یہ وقت کبھی نہیں بھولوں گا تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ میں نےمیڈم سے اپنا کیا وعدہ پورا نہیں کیا اور ان کی لذیذ بریانی نہ چکھ سکا۔ جب ہم نے میڈم کو رخصت کر دیا تو اشفاق صاحب کے چہرے پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی انہوں نے امجد کو مخاطب کرکے کہا تم بڑے پھنے خاں بنتے تھے آج تمہاری پھنے خانی دیکھ لی اور اس کے ساتھ ہی ہم بے ساختہ ہنس پڑے۔

میڈم کی زندہ دلی بہت مشہور ہے جہاں وہ دوسروں پر جملہ کسنے سے باز نہیں رہ سکتی تھیں وہاں ان کے ہم نشین بھی جملہ کسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ایک بہت بڑے موسیقار تھے انہوں نے ایک فلم میں منیر نیازی کی غزل کی کمپوزنگ کی تھی میڈم کے ساتھ ان کی بہت بے تکلفی تھی ایک دن میڈم اپنے مہمانوں سے گپ شپ کے دوران بتا رہی تھیں کہ جب میں نے فلاں گانا گایا تو فلاں بچہ میرے پیٹ میں تھا فلاں والا گایا تو فلاں بچہ میری گود میں تھا جب میڈم اپنی بات پوری کر چکیں تو اس موسیقار نے کہا ’’میڈم کوئی ایسا گانا بتائیں جو آپ نے خالی پیٹ گایا ہو‘‘ مجھے اس بھلے شخص کا نام یاد نہیں آ رہا ،موصوف پاک ٹی ہائوس میں آیا کرتے تھے ایک دفعہ کسی تقریب میں فیض صاحب کے علاوہ میڈم بھی موجود تھیں انہوں نے فیض صاحب سے کہا واپسی پر میں آپ کو ڈراپ کروں گی سو تقریب کے اختتام پر فیض صاحب میڈم کی کار میں بیٹھ گئے میڈم نہر والی سڑک پر آگئیں اور ڈرائیو کرتے کرتے جلو موڑ تک پہنچ گئیں اور اس دوران فیض صاحب صرف سگریٹ پر سگریٹ پیتے رہے بالآخر میڈم نے ایک جگہ کار روکی اور فیض صاحب کو مخاطب کرکے ایک بلیغ جملہ کہا ’’فیض صاحب تسی چاندے کی او‘‘(فیض صاحب آپ آخر چاہتے کیا ہیں) واضح رہے اس جملے کو بلیغ میں نے خود بنایا ہے ورنہ میڈم نےتو ایسی بات کی تھی کہ سن کر فیض صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا اللہ جانتا ہے کہ چہرے کی رنگت بدلنے کی وجہ کیا تھی وہ وجہ مجھے معلوم ہے جو فیض صاحب نے اپنے بے تکلف دوستوں کو بتائی تھی مگر میں آپ کو نہیں بتائوں گا؟

میڈم نے جب جہاز کے کیپٹن سے شادی کی تو وہ اتنا رعب حسن میں آ گیا کہ دس پندرہ منٹ انتظار کے بعد میڈم ایک گانا ریکارڈ کرنے اسٹوڈیو چلی گئیں واپسی پر بھی وہ اس حسن بے مثال کی زد میں تھا۔ مجھے احمد فراز اور طارق عزیز نے بتایا کہ وہ میڈم کے حسن سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے بس اپنے کام سے کام رکھتے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین