بدقسمتی سے ہمارا کوئی شعبہ ایسا نہیں، جسے درست کہا جا سکے، جدید ٹیکنالوجی کے سبب نظام کی سب خرابیاں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور لوگوں کی اپنی خرابیاں سماج کے آئینے میں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ معاشرے اور نظام کا کوئی بھی شعبہ لے لیں، اس کی تصویر صاف نہیں، جب ہر طرف دھند ہو تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ اب جب یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے تو کسے قصور وار کہیں؟ کسے ذمہ دار ٹھہرائیں؟ سوچ کے گہرے سمندروں میں غوطہ زن ہو کر لوٹیں یا پھر ساحل کی ریت پہ بکھرے سیپ سمیٹیں تو خطاؤں کا سارا رخ ایک ہی دکھائی دیتا ہے، رہنماؤں نے رہنمائی نہیں کی بابا! پہاڑوں سے اترتے ہوئے ندی نالوں کا شور سنیں یا خزاں کے بکھرے ہوئے پتوں کی آواز سنیں یا پھر خاموش راتوں میں تیز ہواؤں کی آواز سنیں، صحرا کی ریت پہ بکھری ہوئی چاندنی کے عکس دیکھیں تو ایک ہی صدا آتی ہے، رہنماؤں نے رہنمائی نہیں کی بابا۔ پاکستان کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں، رہنماؤں نے کہاں کہاں سمجھوتے کئے۔ پہلے پہل سول بیوروکریسی اقتدار پر براجمان ہوئی تو ہمارے سیاسی رہنما تھوڑے سے اقتدار کے لالچ میں خاموش رہے گویا انہوں نے سمجھوتہ کر لیا پھر جب سول بیوروکریسی کی دیکھا دیکھی ملٹری بیوروکریسی نے اقتدار سمیٹنا شروع کیا تو ہمارے سیاسی رہنما خاموش رہے۔ 50اور 60ء کی دہائی میں پرمٹ تقسیم ہوتے رہے، ہمارے سیاسی رہنما چپ رہے۔ 60ء کی دہائی میں بنگال میں ظلم بولتا رہا، ہمارے سیاسی رہنما چپ رہے۔ 50اور 60ء کی دہائی میں عدالتوں سے نظریہِ ضرورت کی آوازیں گونجتی رہیں اور ہمارے سیاسی پہلوان گونگے بنے رہے۔ ملک ٹوٹا تو ہمارے کچھ سیاستدانوں نے ملک ٹوٹنے پر بھی جشن منائے اور اقتدار کی غلام گردشوں میں سے اقتدار سمیٹنے کی کوشش کی۔ ہمارے سیاسی رہنما تھوڑے سے ذاتی اقتدار کے لئے سمجھوتے کرتے رہے اور مقتدر قوتوں کی جھولی میں بیٹھتے رہے۔ ہمارے ہاں جتنے بھی آمر آئے، سیاستدانوں کی ایک تعداد ان کے ساتھ لگ گئی، ساتھ جڑ جانا بھی تو ایک سمجھوتہ ہے، ہمارے ہاں ہر مرتبہ دھاندلی زدہ الیکشن ہوئے اور ہمارے سیاسی رہنماؤں نے اقتدار کے لالچ میں یہ الیکشن قبول کر لئے۔ ہمارے ہاں الیکشنوں سے پہلے انتظامیہ کی جانبداری سامنے آتی رہی اور ہمارے سیاستدان سمجھوتہ کرتے رہے، یہ سمجھوتے، یہ خاموشی معاشرے پر بھی اثر انداز ہوئی، معاشرے میں ہر طرف جھوٹ ہے، بد دیانتی ہے، حرام خوری ہے، انصاف بھی نہیں ہے۔ کہیں کمیشن مافیا ہے، کہیں کوئی مافیا ہے تو کہیں کوئی مافیا ہے کیونکہ اقتدار کے ایوانوں میں بددیانتی پھیلی ہوئی ہے۔ لہذا معاشرے میں پھیلی ہوئی بددیانتی کو کون ختم کرے گا؟ ہمارا معاشرہ پولیس اور مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، اب حالت یہ ہے جو کوئی بولتا ہے، اس کی زباں بندی کر دی جاتی ہے، ہمارے سیاسی رہنماؤں نے معاشرے میں پھیلتے ہوئے جھوٹ، بددیانتی، ملاوٹ اور حرام خوری سمیت ہر قسم کے مافیاز کو قبول کیا۔ ہمارے سیاستدانوں نے ہر برائی پر آنکھیں بند کئے رکھیں، آج معاشرے اور نظام کی بگڑی ہوئی تصویر کے ذمہ دار ہمارے رہنما ہیں۔ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، قانون پر عملدرآمد کروانا انتظامیہ کا کام اور اگر عمل نہ ہو تو حساب کتاب کرنا عدلیہ کا کام ہے مگر بد قسمتی سے نہ پارلیمنٹ اپنی مرضی سے قانون بناتی ہے، نہ انتظامیہ قانون پر عملدرآمد کرواتی ہے اور نہ عدلیہ حساب کتاب کرتی ہے، حالت یہ ہو گئی ہے کہ عدلیہ بھی سرکاری محکموں کی طرح حکومتوں کی نگرانی میں کام کر رہی ہے۔ یہ ساری منظر کشی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہمارے سماج اور نظام میں ہر برائی اپنے عروج کو چھو چکی ہے، جب ہر برائی اپنے عروج کو چھو جائے تو پھر زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اب ان برائیوں کا زوال شروع ہو جائیگا کیونکہ ان برائیوں کے ہر موڑ پر جبر ہے اور جبر ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے " کوئی نظام کفر کی بنیاد پر تو چل سکتا ہے مگر جبر کی بنیاد پر نہیں"۔ سو میرے پیارے پاکستانیو! ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہو گا، برائیوں کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ جاتے جاتے نوشی گیلانی کا شعر یاد آ گیا ہے کہ
دل کی منزل اُس طرف ہے گھر کا رستہ اِس طرف
ایک چہرہ اُس طرف ہے ایک چہرہ اِس طرف