• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دورانِ جنگ، غزہ کی کس خاتون کے واقعے نے حددرجہ متاثر کیا؟

’’خواتین کے عالمی دن‘‘ کے موقعے پر غزہ کی خواتین کی عزم و ہمّت سے بھرپور داستانیں لمحہ لمحہ یاد آتی رہیں۔ اِس ضمن میں کچھ خواتین کو ایک سوال بھیجا گیا کہ دورانِ جنگ غزہ کی کس خاتون کے کس واقعے نے آپ کو اس درجہ متاثر کیا کہ آپ تڑپ اُٹھی ہوں۔ اِس سوال کے جواب میں خواتین نے جو واقعات بتائے، وہ جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی بھی نذر کیے جا رہے ہیں۔

……٭٭……٭٭……

ڈاکٹر مدیحہ مدثر، کراچی

غزہ جنگ کے دَوران جہاں ایک طرف تباہی کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے، وہیں ایک منظر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ حیا اور حجاب کا ایسا اہتمام کہ ایک خاتون نے، جو ملبے میں دَبی ہوئی تھیں، یہ کہہ کر باہر آنے سے انکار کردیا کہ’’پہلے چادر لاکر دو، مَیں بے پردہ باہر نہیں آسکتی۔‘‘ دیگر کئی خواتین بھی مکمل عبایا پہنے ہوئے ملبے سے نکلتی دِکھائی دیں۔ 

اُنہوں نے بتایا۔’’ہم عبایا پہن کر ہی سوجاتی ہیں کہ معلوم نہیں کس وقت حملہ ہوجائے۔‘‘اُن کی یہ لگن دیکھ کر بہت حوصلہ ملتا ہے کہ ہم تو اکثر گھبرا کر حجاب کو مشکل تصوّر کرنا شروع کردیتی ہیں۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، آئس کریم کا وہ ٹرک، جس میں غزہ کے معصوم پھولوں کی لاشیں رکھی ہوئی تھیں۔

مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس شخص کو، جو ایک ٹیڈی بیئر کے ساتھ ملبے پر بیٹھا تھا اور اُس کا پورا گھر ملبے تلے دَب چُکا تھا۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس باپ کو، جو اپنے بچّے کے جسم کے ٹکڑے ایک تھیلے میں ڈالے جا رہا تھا۔lمَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُن لوگوں کو، جنہیں جنوب کی طرف ہجرت کے دَوران شہید کیا گیا۔

مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس لڑکے کو، جو چیخ چیخ کر پوچھ رہا تھا ’’کہاں ہیں عرب؟‘‘ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُن ڈاکٹرز کو، جنھوں نے سڑکوں پر موبائل کی روشنی میں آپریشن کیے۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، لاشوں اور انسانی اعضاء سے بَھرے اسپتال کے میدان کو۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس بچّے کو، جو ویران آنکھوں کے ساتھ بیٹھا کانپ رہا تھا۔lمَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس بچّی کو، جو روتے ہوئے پکار رہی تھی،’’مجھے میری ماں چاہیے۔‘‘

مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس شخص کو، جس نے ایک شہید بچّہ اُٹھا رکھا تھا اور کہہ رہا تھا۔’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔‘‘lمَیں نہیں بھول سکتی، انتہائی درد کی حالت میں’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہوئے لوگوں کو۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس لڑکے کو، جو حالتِ نزع میں مبتلا اپنے بھائی کو کلمۂ شہادت کی تلقین کر رہا تھا۔

مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، بچّوں کے خون آلود جوتے۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس بچّے کو، جو یہ پوچھ رہا تھا،’’کیا مَیں اب بھی زندہ ہوں؟‘‘مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس ڈاکٹر کو، جسے شفٹ کے دَوران پتا چلا کہ اُس کے گھر پر بم باری ہوئی ہے، مگر اُس نے اپنا کام جاری رکھا۔

مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، مریم کو، جس کے سر پر بے ہوش یا سُن کرنے کی دوا کے بغیر سترہ ٹانکے لگے۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُن بچّوں کو، جو اپنے اپنے خواب بتا رہے تھے۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس باپ کو، جو اپنے بچّے سے کہہ رہا تھا کہ’’یہ بموں کی آواز نہیں، کھلونوں کی آواز ہے۔‘‘ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس ماں کو، جس نے آخری بار اپنے بچّے کو گلے لگایا تھا۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُن مسلمان رہنماؤں کی خاموشی، جن کے پاس طاقت تھی، اختیار تھا، لیکن اُنہوں نے کچھ نہیں کیا۔

افشاں نوید، کراچی

جب سے اُمّ ِ خالد کو دیکھا،گویا وہی ہر منظر سے منعکس ہوتی ہیں، اُنہی کو سوچتی رہتی ہوں۔ کاش! اُس گھر کی دیواروں کو ایک بار چُھو پاتی۔اُن گلیوں سے ایک مُٹّھی مٹّی ہی اُٹھا لاتی۔ اُس کی خُوش بو عطر کی شیشی میں محفوظ کرلیتی۔ ہم نے صحابہ کرامؓ کا دَور تو نہیں دیکھا، مگر اللہ نے کچھ لوگ باقی رکھے، جیسے میوزیم میں تاریخی نوادرات رکھے جاتے ہیں کہ قومیں تاریخ سے جُڑی رہیں۔ اللہ ربّ ِ کریم نے غزہ کی پٹّی پر کچھ نفوس باقی رکھے ہیں کہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ بھول نہ جائیں۔313کی خوش بُو آج پھر بسی ہے فضاؤں میں۔

اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے موقعے پر، وہ ایک پاؤں کا سپاہی، جو سینہ تانے ہتھیار سے لیس کھڑا ہے، حضرت جعفر طیّارؓ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔اُمّ ِ خالد کا روشن چہرہ، جن کی آنکھوں میں اداسی اور غم ٹھہرئے ہوئے ہیں، لیکن چہرے پر معصوم سی، باحیا مسکراہٹ۔ خیمے جیسے گھر میں اُن کے ہم راہ اُن کے تینوں بچّے بیٹھے ہیں،جنہوں نے باپ کھو دیا، مگر عزم ویقین نہیں کھویا۔

روئے زمین نے ایسے عظیم لوگ دیکھے، مگر جنہیں ’’وہن‘‘ کی بیماری ہے، وہ کہہ رہے ہیں، یہ کیا کر دیا…؟؟ اِتنے لوگ مروا دیئے، اِتنے معذور ہوگئے، بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں اور جن پر یہ سب گزری، وہ آج بھی لحن کے ساتھ تلاوتِ قرآن کرتے ہیں، اپنے ربّ کے وعدوں کو دُہرا رہے ہیں۔

اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کی تقریب میں بینر لگا ہے’’کُھلی فتح‘‘۔ صلحِ حدیبیہ کے موقعے پہ کسے پتا تھا کہ یہ کُھلی فتح ہے، مگر اللہ کے نبی علیہ الصّلوۃ والسّلام کو یقین تھا اور یہ اُسی قافلے کے لوگ ہیں۔ کمانڈر انچیف کا’’پُرتعیش محل‘‘جب کیمرے نے دیکھا، تو دنیا کو دِکھایا، اُس شخص کا’’قلعہ‘‘، جو دنیا کا سب سے مطلوب فرد تھا۔

وہ’’محل‘‘جس کا صیہونی میڈیا میں چرچا تھا۔کہا جاتا تھا کہ خود عیّاشی کر رہے ہیں، بیوی بچّوں سمیت سُرنگوں میں محفوظ ہیں اور فلسطینیوں کو مروا رہے ہیں۔ یہ ایک کمرے پر مشتمل’’محل‘‘ ہے، جس کی چوکھٹ پر لکڑی کا دروازہ بھی نہیں، پردے کے لیے بس بینر لٹکا ہوا ہے۔کچن کے نام پر چولھا اور ایک سلیب۔

گھر گویا مسافر خانہ، پوٹلیاں اور ڈبّے۔ جیسے ابھی زادِ راہ اُٹھائیں گے اور چل پڑیں گے۔ ایک طرف بینر لگا ہوا ہے، جس پر رمضان المبارک میں قرآنِ کریم سُنانے والے حفّاظ کے نام درج ہیں۔ شہید کمانڈر اِن چیف کی اہلیہ، اُمّ ِ خالد اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ مطمئن بیٹھی ہیں۔ ماتم نہ رونا پیٹنا۔ 

صبر کو اگر انسانی صُورت میں دیکھنا ہے، تو اُمّ ِ خالد کو دیکھ لیجیے۔ایمان کی حرارت پا لیجیے۔ یتیم بچّوں کے چہروں پر بھی اطمینان، کہاں سے پائی اُنھوں نے دنیا کی حقیقت۔اُمّ ِ خالد کہتی ہیں کہ’’ہمارے گھر میں ایک چٹائی اور چار گدّے ہیں، جنگ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ الحمدللہ ربّ العالمین۔‘‘

ہم شُکر اُن سے سیکھیں، بچّوں کی زبان پر بھی الحمدللہ، الحمدللہ۔ہم دیکھ رہے ہیں، سر دُھن رہے ہیں، وہ ایمان وہ ایقان، زندگی کی کش مکش بڑھ گئی، اب تو سب دیکھ لیا۔ عین الیقین کے بعد حق الیقین کی راہ میں سدِ راہ بڑے پتھر ہیں، بڑے روگ، ہم وہن زدہ لوگ، مگر منزلوں کی یقین والوں سے یاری ہے، غزہ کی اس پٹی سے بادِ نسیم ہر صبح یہی پیام لاتی ہے۔

ڈاکٹر پروین سیف مانسہروی، مانسہرہ

دنیا بَھر میں جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اسپتالوں، اسکولز پر بم باری نہیں کی جاتی، عورتوں، بچّوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا، مگر اسرائیل نے تمام اصول، ضابطے روند ڈالے۔ ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، بالخصوص غزہ کے معصوم پھول جیسے بچّوں پر جو قہر ڈھایا گیا، تاریخ میں اُس کی مثال نہیں ملتی۔فلسطینی ماؤں کے صبر و حوصلے کو سلام کہ جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچّوں کے ٹکڑے بموں سے اُڑتے، بکھرتے دیکھے، پھر بھی اُن کے حوصلے متزلزل نہ ہوئے۔

آفرین ہے، ان مومن ماؤں پر کہ جو عزیمت کے پہاڑ ثابت ہوئیں، پوری اُمّت کے لیے مشعلِ راہ بنیں۔غزہ کی تصویر میں کہیں زخموں سے چُور اور بھوک سے نڈھال بچّے مدد کو پکار رہے ہیں، تو کہیں پیٹ کی آگ بُجھانے کے لیے مٹّی اور گھاس کھانے پر مجبور ہیں۔ دو، ڈھائی سال کی پیاس سے نڈھال معصوم زخمی بچّی کسی قریب کھڑے پانی کے خالی ٹینکر کی گیلی ٹونٹی کو اپنی خشک زبان سے چاٹ رہی ہے۔

کس کس پھول کی تصویر ذہن کے پردے سے مٹاؤں؟ کس کس کے درد و کرب کو الفاظ کی مالا میں پروؤں؟ مجھے تو اُس چھوٹی سی بچّی کی آواز اور بے بسی کی آخری تصویر کبھی نہیں بھولتی، جو زخموں سے چُور اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے سسک سسک کر کہہ رہی تھی کہ’’مَیں اللہ جی کو جا کے شکایت لگاؤں گی۔‘‘

یہ الفاظ کوئی معمولی الفاظ نہیں، انسان کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہوجاتے ہیں، دل خوف سے لرز اٹھتا ہے کہ اگر اس بچّی نے اللہ ربّ العزّت کے ہاں ہم سب کی شکایت لگا دی ہوگی، تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟ کیوں کہ کسی نہ کسی طرح ہم بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔

کچھ اِس ظلمِ عظیم پر خاموش تماشائی بنے رہے اور کچھ ان ظالموں کی مصنوعات خرید کر اُنھیں معاشی فوائد پہنچانے کا ذریعہ بنے۔اِس معصوم بچّی کی آواز پوری اُمّتِ مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

سمیرا نور اللہ

غزہ میں ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم ہوئی، مگر ہم نے سب کچھ سُن، دیکھ کر بھی اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ مجھے ایک 65 سالہ خاتون یاد آ رہی ہیں، جو ایک انٹرویو میں بتا رہی تھیں کہ’’ہم یہاں بہت تکلیف میں ہیں اور خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘ وہ اپنے پوتے، پوتیوں کو تسلّی دے رہی تھیں کہ ڈرنا نہیں اور ساتھ ہی پوری امّتِ مسلمہ سے دُعا کی اپیل بھی کر رہی تھیں کہ ہم فلسطینوں کو رحم کی نظر سے دیکھیں۔ 

اُن کے شوہر پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ ادویہ کے بغیر پناہ گزین کیمپ میں رہے اور وہیں چل بسے۔ وہ یہ بھی بتا رہی تھیں کہ’’ہم مسلسل خوف زدہ ہیں، جیسے کوئی فلم ہو، آپ کی سوچ سے بھی زیادہ، ہر رات خوف میں سوتے ہیں۔‘‘ افسوس! ہم کچھ نہیں کر سکے، سوائے ٹی وی پر یہ مناظر دیکھنے کے۔

مدیحہ رحمٰن، راول پنڈی

مَیں نے غزہ کی ایک تصویر دیکھی، جس میں ایک خاتون خود عمارت کے اندر آگ میں جل رہی تھی اور اُس نے بچّے کو کھڑکی سے باہر نکالا ہوا تھا۔ بچّہ بھی دھویں سے سیاہ پڑ چُکا تھا۔ ماں نے بچّے کو بازو سے پکڑ کے باہر لٹکایا ہوا تھا اور خود وہ اندر جلتے کمرے میں موجود تھی۔

حریم شفیق، اسلام آباد

برف کا طوفان تھا، اندھیری رات تھی، تین معصوم بچّوں کا ساتھ اور پلاسٹک کی کوئی شیٹ سی تھی، جسے چھپّر کے طور پر استعمال کر رکھا تھا کہ شاید برف باری سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ کبھی ایک بچّے کو اپنے بے بس وجود سے بھینچتی، تو کبھی دوسرے کو کہ ننّھی، معصوم سی، نازک سی گڑیا سردی میں ٹھٹھر رہی تھی اور ایک سال کا بیٹا، جس کے ہونٹ سردی کے مارے نیلے پڑے جاتے تھے۔

ایک چھے یا سات سالہ بیٹا بھی قریب ہی حسرت بَھری نظروں سے ماں کے وجود کو دیکھتا کہ کاش! مَیں بھی ماں سے لپٹ سکتا، لیکن اس کا ایثار کہ چھوٹے بہن بھائیوں کو زیادہ ضرورت ہے۔ اچانک زور کی ہوا چلی اور چھپّر نُما شیٹ اُڑ گئی۔

ماں فوراً اٹھی، سرد ہوائیں اس کے وجود سے ٹکرائیں، مگر وہ چٹان بنی، اپنے معصوم بچّوں کے لیے دوبارہ شیٹ کی چھت بنانے کی کوشش کرنے لگی۔اس کا چھے، سات سال کا بیٹا ماں کو طوفان سے لڑتا دیکھ کے، ماں کا ساتھ دینے کھڑا ہوگیا۔ کیا اُسے سردی نہیں لگ رہی تھی؟ کیوں نہیں، مگر اُسے اپنی ماں کے ساتھ بہادری سے کھڑا ہونا تھا۔

ویڈیو میں یہ منظر دیکھ کر رُوح کانپ گئی کہ کیسے یہ تنِ تنہا عورت، اپنے بچّوں کو برف کے طوفان سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔کون کہتا ہے کہ عورت کم زور ہے۔غزہ کی عورت نے ثابت کر دیا کہ عورت چٹان کا سا حوصلہ رکھتی ہے۔

حمیرا ذوالفقار، راول پنڈی

مَیں وہ منظر نہیں بھول پاتی کہ ایک جوان لڑکی اپنی گود میں بچّے کی کفن میں لپٹی لاش اُٹھائے ہوئے ہے اور ساتھ ہی کفن میں لپٹے اپنے زندگی کے ساتھی کو بھی الوداع کہہ رہی ہے۔ کبھی بچّے کو سینے سے لگاتی ہے، تو کبھی ہم سفر کی پیشانی پر ہاتھ پھیرتی ہے۔

مصباح مجید، لالہ موسیٰ

فلسطین کی ایک ویڈیو نظر سے گزری، جس میں نوجوانوں کا ایک گروہ اپنے ہاتھوں میں شہداء کی تصاویر اُٹھائے، اُن ماؤں کے سامنے آ کر، جنہوں نے اِس جنگ میں اپنے بیٹے اللہ کی راہ میں قربان کر دیئے، بلند آواز سے کہہ رہے ہیں۔’’اے شہداء کی ماؤ! ہم آپ کے بیٹے ہیں۔‘‘وہ تمام نوجوان بلند آواز سے یہ الفاظ دُہراتے جاتے ہیں اور گھروں میں کھڑی مائیں زاروقطار روتی جاتی ہیں۔

پھر یکایک خاموشی چھا جاتی ہے، اِس گروہ میں موجود ایک نوجوان سامنے آتا ہے اور کہتا ہے۔’’امّی! یہ تمام آپ کے بچّے ہیں۔ ہر گلی میں آپ کے بیٹے ہیں۔‘‘ کھڑکی میں کھڑی ماں آنسوؤں کے ساتھ اثبات میں گردن ہلاتی ہے۔فضا’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھتی ہے اور وہ تمام نوجوان آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اِس لمحے وہ مائیں ہی تنہا رونے والی نہیں تھیں بلکہ ہر وہ آنکھ، جس نے یہ منظر دیکھا، اشک بار رہی ہوگی۔

سائرہ سعد، کراچی

مجھے غزہ کی ماں کی اُس وڈیو نے بہت متاثر کیا، جو’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے شروع میں سامنے آئی تھی، جس میں اُس کا بیٹا چہرہ چُھپائے انٹرویو دے رہا تھا، تو وہ یہ دیکھ کر آگے بڑھی اور یہ کہتے ہوئے بیٹے کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا’’چُھپ کر نہیں، بہادروں کی طرح بات کرو۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ ابرار

پری خاموش ہوگئی۔ ہند رجب کے پھول جیسے جسم سے پوسٹ مارٹم کے وقت355 گولیاں برآمد ہوئی تھیں۔ اس ننّھے سے جسم کے ہر عضو میں اِتنی ڈھیر ساری گولیوں نے اپنا راستہ کیسے بنایا ہوگا، وہ بھی اُس کے جسم میں خوف سے پیوست ہو کر رہ گئی ہوں گی۔

اُنہوں نے نرم وجود کو اپنا گھر بنا لیا تھا۔ 355خاموش گولیاں چیخ چیخ کر گواہی دے رہی تھیں کہ ہمارا کوئی قصور نہیں، ہمیں تو ظالم، سفّاک، بچّوں کے دشمن، درندوں نے اس کام کے لیے مجبور کیا تھا۔

عافیہ سرور

مَیں غزہ کی عورت ہوں، غزہ میرا دیس ہے، غزہ میرا مان ہے، مَیں غزہ کی شان ہوں، مَیں غزہ کی عورت ہوں، غزہ میری دھرتی ماتا…گود بھی ہے، آغوش بھی ہے۔انبیاءؑ کی یہ سر زمین…خونِ مسلم کی امیں۔مُلک میرا فلسطین…زندہ رہے گا فلسطین۔ ان شاء اللہ۔جی جان سے اعلان ہے میرا…سُن لو یہ پیغام میرا۔مَیں مسلم ہوں، مَیں مومن ہوں…مَیں صادق ہوں، مَیں صابر ہوں۔ مَیں ہمّت ہوں، مَیں جرأت ہوں…مَیں غزہ کی عورت ہوں۔ مَیں قوّت ہوں، مَیں طاقت ہوں…مَیں ایک پُرجوش حرارت ہوں۔مَیں اک بارُعب شجاعت ہوں…مَیں عظمت، شوکت، رفعت ہوں۔مَیں رحمت، راحت، شفقت ہوں…مَیں تو نصف انسانیت ہوں، مَیں مادرِ قوم و ملّت ہوں، مَیں غزہ کی عورت ہوں۔جب کفر کی دین سے ٹکر ہوئی، تو مَیں نے حق کا ساتھ دیا۔ باپ، بھائی، شوہر بیٹا…سب دین، وطن پہ وار دیئے۔

تھا جتنا خزانہ قوّت کا، سب مقصد پر قربان گیا۔ مَیں غزہ کی عورت ہوں، مَیں غزہ کی بیٹی ہوں۔ حسّاس تھی مَیں، احساس کیا، کلمے اپنے کا پاس کیا۔بھول گئی سب ناز و ادا… اور اُمّت پر احسان کیا۔مہرو وفا کا دامن پکڑا…عجز وحیا سے رشتہ جوڑا۔ آوارگی وعریانی چھوڑی…عیش وعشرت سے آنکھیں پھیریں۔خواہش کے کھلونوں کو توڑا…چوڑی بالی، کاجل چھوڑا۔جلووں کی نمائش سے نکلی…غازہ، سُرخی، پائل چھوڑی۔ جنّت میں اِک گھر کی خاطر… بے کار مشاغل کو چھوڑا۔ اخلاق کے رستے کو پکڑا…جذبات کی دنیا کو چھوڑا۔حق کی حفاظت کو نکلی…نسلوں کو بچانے کو تڑپی۔ اِک آگ کی بارش تھی ہر سُو…تن، مَن، دھن قربان کیا۔

ربّنا تقبل منا، ربّنا تقبل منا،مَیں اقصیٰ کی بیٹی ہوں۔پیچھے نہ ہٹیں گے ہم…اب تو آگے ہی بڑھیں گے۔سب ظلم کی راتیں بیت گئیں…اب دین کا سورج چمکے گا۔ ان مع العسر یسرا…ان مع العسر یسرا۔ اقصٰی کی آزادی تک، اب جنگ جاری ہے۔ مَیں غزہ کی بیٹی ہوں، مَیں اُمّت کی عورت ہوں۔ تم بھی ملّت کی عورت ہو، اب آؤ مل کر ساتھ چلیں۔ اے ماؤ، بہؤو، بیٹیو! اے مومنات، اے مسلمات، اے حافظات، اے قانتات… فاستبقو الخیرات، فاستبقو الخیرات۔

جنّت کے راہی…!!

(ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، لاہور)

لگتا تھا، دل مُٹّھی میں آگیا ہے اور پاؤں رُک سے گئے ہیں۔ ایسا رُعب کہ جو کبھی بادشاہوں کے محلّات میں بھی محسوس نہیں ہوا تھا، دل کو گرفت میں لے چُکا تھا۔ اندر داخل ہوئے، تو ایک عجیب سا سکوت، سکون اور اطمینان تھا-یوں لگتا تھا کہ وہاں شہیدوں کی رُوحیں محوِ پرواز ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ وہ تین جوان شہداء کی ماں کا مسکن تھا۔ وہ ماں، جس کے ہاتھ چُومنے کی خواہش مجھے، عبداللہ عزام شہید کی بیٹی اور خالد مشعل کی بیوی کو وہاں کھینچ لے گئی تھی۔

جب شہداء کے والد، اسماعیل ہانیہ تک میری درخواست پہنچی کہ قاضی حسین احمدؒ کی بیٹی قطر آئی ہوئی ہیں اور اُن کی اہلیہ سے ملاقات کی سعادت حاصل کرنا چاہتی ہے، تو اُنہوں نے فوراً بُلا لیا اور تب مجھے پتا چلا کہ اسلامی تحریکوں کا یہ پُرخلوص رشتہ، کتنا میٹھا رشتہ ہے۔ وہ دیر تک پاکستان، جماعتِ اسلامی اور آغا جان(قاضی حسین احمد) کی باتیں کرتے رہے۔خالد مشعل کی اہلیہ بولیں۔’’ہمارے گھر میں آج بھی قاضی صاحب ایک شفیق بزرگ کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔‘‘

اسماعیل ہانیہ کی اہلیہ نے جب بتایا کہ اُن کے تیرہ میں سے تین بچّے شہید ہوئے ہیں، ابھی تو دس دوسرے باقی ہیں اور ہم تو’’النصر مع الصبر‘‘ کے ساتھ’’ان تنصروااللہ ینصرکم‘‘ کے وعدے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، تو ضبط کے بندھن ٹوٹ ٹوٹ گئے کہ اے اللہ، یہ کون سی بستی اور کون سی نسل کے لوگ ہیں، جنہیں تو نے ایسے حوصلے سے نوازا ہے۔اسماعیل ہانیہ کے بچّے آج بھی غزہ ہی میں موجود ہیں اور جنّت و شہادت کی طلب اس پورے خاندان کے انگ انگ سے پُھوٹتی محسوس ہوتی ہے۔

مَیں اسماعیل ہانیہ سے قطر میں فلسطینی خواتین کے لیے ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد اُن کی قیام گاہ پر مل کر آئی تھی، پھر اُن کی شہادت نے میرا یہ خیال درست ثابت کر دیا کہ مجھے اس گھر میں جنّت کی مخلوق سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔اُن سے متعلق کانفرنس کے مقرّرین کہہ رہے تھے اور سچ ہی کہہ رہے تھے کہ’’یہ فلسطین اور غزہ کے لوگ اِس دنیا کے نہیں، جنّت کے باسی ہیں۔‘‘