مسلم اُمّہ کے وجود پر تقریباً پندرہ سو سال کے عرصے میں جو بڑے زخم لگے، اُن میں ایک خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا چَرکا بھی ہے۔ اناطولیا (ایشیائے کوچک) کے ایک چھوٹے سے صوبے سے اُٹھان لینے والی اِس سلطنت نے سولہویں صدی میں خلیفہ سلیمان ذی شان یا سلیمان قانونی کی چالیس سالہ طویل حکومت میں وسعت اختیار کی اور بحرِ احمر کے مشرق، شمالی افریقا سے لے کر بلقانی ریاستوں سے آگے مشرقی یورپ میں ویانا کی دیواروں تک، جا پہنچی۔ اس کا دامن اتنا وسیع تھا کہ اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، عیسائی اور بہت بڑی تعداد میں یہودی بھی امن و سکون سے رہتے تھے۔
اپنی طاقت و رفعت کی وجہ سے یہ یورپی مفکّرین اور ماہرینِ فنون کا موضوعِ گفتگو بنی ہوئی تھی، لیکن گردش گردونِ گرداں نے اُسے اپنی لپیٹ میں لیا اور اٹھارہویں صدی کے اواخر میں اس کی شان و شوکت گہنانے لگی۔اختیارات کا مرجع و محور خلیفہ کی شخصیت تھی۔انتظامی تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے دُور دراز پھیلے ہوئے علاقوں پر خلیفہ کی گرفت کم زور پڑنے لگی۔
خلیفہ کے گرد حلقہ بنا لینے والے بااثر’’پاشوں‘‘ میں کرپشن نے جڑیں پکڑ لیں۔ سلطنت اقتصادی لحاظ سے کھوکھلی ہو گئی۔ یہودی ساہو کار اور بینکوں کے مالک، دولت جمع کر کے ریاست سے بھی زیادہ امیر ہوگئے۔؎’’ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں…ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں۔‘‘اللہ تعالیٰ کی اِس کائنات میں ہم حالات و واقعات کو ہر دَم پلٹا کھاتے دیکھتے ہیں۔ تغیّر ہی تغیّر ہے، ثبات کسی قوم کو ہے، نہ فرد کو، مُلکوں اور نہ ہی سلطنتوں کو۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔‘‘
اِسی لیے کہا گیا ہے کہ’’ہر کمالے را زوال‘‘، یعنی جو عروج کی بلندی دیکھتا ہے، انجام کار وہ زوال کی پَستی میں بھی گر کے بھی رہتا ہے۔ بڑی بڑی عظیم سلطنتیں آئیں۔ دارا و جمشید گزرے۔ سکندر اور جدید دَور میں نپولین جیسے فاتحین نے ایک دنیا میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے، لیکن قدرت کی طرف سے اُن کی فتوحات کی ایک حد مقرّر تھی۔ بابل کے نمرودوں کی سلطنت باقی بچی اور نہ ہی مصر کے فرعونوں کا اقتدار قائم رہا۔؎ ’’نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا…مِٹے نامیوں کے نام کیسے کیسے۔‘‘
اِس حد پر پہنچ کر وہ نام وَر خُود بھی خاک میں جا سوئے اور سلطنتوں کا سطوت بھی غبار بن کر بیٹھ گیا۔شام میں اموی سلطنت کا چراغ گُل ہوا، تو بغداد میں عباسی سلطنت کی شمعیں روشن ہو گئیں۔ اِس سلطنت کی مادّی ترقّی اور خوش حالی بامِ عروج پر پہنچی۔ اس کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ ایک دن خلیفہ ہارون الرّشید اپنے محل کی چھت پر کھڑا موسم سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔
آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا حرکت کرتا ہوا محل کی ایک جانب سے دوسری طرف چلا گیا، تو ہارون الرّشید نے کہا۔’’اے بادل کے ٹکڑے! تُو دنیا کے جس حصّے میں بھی برسے گا، اُس کا خراج میرے ہی خزانے میں آئے گا۔‘‘معاشی خوش حالی، تہذیب وتمدّن کی چکا چوند، علوم و فنون کی روشنی، فقہ و حدیث اور فلسفہ و تصوّف کی بلندیوں کو چھُو کر یہ سلطنت تاتاریوں کی وحشت کی نذر ہوگئی۔ بغداد کھنڈر بن گیا اور کتابوں کی بربادی نے دجلہ کے پانی کو سیاہ کر دیا تھا۔خزاں لُوٹ کے لیے گئی باغ سارا۔؎ ’’نہ گل ہیں، نہ غنچے، نہ بُوٹے، نہ پتّے…ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے۔‘‘
ایک اموی شہزادے، عبدالرحمٰن الدّاخل، جو عباسیوں کے جور و ستم سے بھاگ کر مراکش اور پھر خلیج پار کر کے اندلس میں داخل ہوا تھا، وہاں اموی سلطنت کی داغ بیل ڈال چُکا تھا۔ اندلس میں سات سو سال تک اس مسلم سلطنت نے تہذیب و تمدّن اور علوم وفنون کے ایسے نقوش اُبھارے، جن کی روشنی یورپ تک پھیلی، لیکن 1492عیسوی میں اپنے پیچھے مسجدِ قرطبہ اور قصر الحمراء جیسے نشانات چھوڑ کر یہ بھی مِٹ گئی۔ اندلس کی مسلم سلطنت کے زوال و ادبار سے پہلے ہی تُرکی میں عثمان اوّل بن ارطغرل نے 1299عیسوی میں ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھ دی تھی۔
فروری 1451عیسوی میں رسولِ اکرم ﷺ کی ایک حدیث کا مصداق ثابت ہوتے ہوئے سلطان محمّد فاتح نے بازنطینی رومیوں کو شکست دے کر اُن کی عظمت کے بُرج و مینار زمیں بوس کر دیئے۔ بازنطینی دارالسّلطنت، قسطنطنیہ رومیوں سے چھین لیا۔ قسطنطنیہ کا نام استنبول رکھا گیا۔
پھر چھے سو چوبیس سال تک عثمانی سلطنت نے اپنا جاہ و جلال، عظمت و حشمت دِکھائی۔ سلطان عبدالحمید ثانی کی خلافت تک اِس سلطنت کی کچھ نہ کچھ شوکت و حشمت موجود تھی، لیکن کچھ سلطنت کی مالی حالت اور کچھ انتظامی خرابیوں کی وجہ سے یہ کم زور پڑ گئی۔بلقان کی جنگوں نے اس میں مزید اضمحلال پیدا کیا۔
سلطنت کا خزانہ خالی ہو رہا تھا اور اُدھر یہودیوں کو سلطان نے جو آزادی دی تھی، اُس سے فائدہ اُٹھا کر یہودیوں نے ساری دولت تُرکی اور بیرونِ مُلک کے بینکس میں جمع کر لی تھی۔ ایسے یہودی بھی تھے، جو ریاست سے زیادہ امیر تھے۔ وہ تُرک عوام میں ضرورت مندوں کو بھاری سُود پر قرض دیتے اور سُود دَر سُود کے حساب سے استحصال کرتے۔ اِن حالات سے گزرتے ہوئے جنگِ عظیم اوّل کے آخر میں عثمانی سلطنت کے مختلف حصّے فرانس، برطانیہ اور روس نے بانٹ لیے۔ اِن حالات میں خلافت بے جان ہو کر رہ گئی تھی۔
آخر1924 ء میں مصطفیٰ کمال نے ایک آمرانہ ضرب لگا کے اس کی جان نکال دی اور خلافت کا ادارہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ امیر مینائی نے حیدر علی آتش ہی کے ردیف قافیہ میں کہا تھا۔؎ ’’ہوئے نام وَر بے نشاں کیسے کیسے…زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔‘‘لیکن خلافتِ عثمانیہ کے خلاف عالمی سطح پر جو سازشیں ہوئیں، اُن میں تُرک اور عرب قوم پرستی بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔
سلطان عبدالحمید ثانی مزاجاً قدامت پسند تھے۔مذہبی حلقوں کا اُن پر اثر تھا، لیکن یہ حلقے فکری جمود کا شکار تھے۔ اجتہاد کے دروازے پہلے ہی بند ہو چُکے تھے اور تصوّف کے اثرات گہرے تھے۔ جدید ذہن ایسی توہّم پرستیوں کو قبول نہیں کر رہا تھا، جسے بڑی مہارت سے مغربی تہذیب و تمدّن کا شیدائی بنایا گیا اور’’ینگ تُرک تحریک‘‘ انہی مغرب پرستانہ رجحانات کا شاخسانہ تھی۔
پہلی عالمی جنگ میں تُرکی کے شامل ہونے کا کوئی جواز نہیں تھا، لیکن اس کی فوج میں انور پاشا جیسے لوگ تھے، جنہوں نے عثمانی سلطنت کو اس دلدل میں دھکیلا۔ جنگ میں جرمنی کے ساتھ اتحاد بھی انہی لوگوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ انہی لوگوں نے البانیا اور قبرص میں قتلِ عام میں گھناؤنا کردار ادا کیا تھا، جس کا داغ تُرکی کے دامن پر ابھی تک لگا ہوا ہے۔
1908ء سلطان عبدالحمید ثانی نے’’ینگ تُرک تنظیم‘‘ کا ایک مطالبہ منظور کرتے ہوئے دستور بحال کر کے اپنے بہت سے اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیئے تھے، لیکن ینگ تُرک انقلاب یا کمیٹی آف یونین اینڈ پراگریس (CUP) کا ہیرو، انور پاشا، جس کے ٹولے میں جمال پاشا، طلعت پاشا بھی شامل تھے،اپنے الگ عزائم رکھتا تھا۔مصطفیٰ کمال کا تعلق بھی ینگ تُرک تحریک سے تھا، لیکن انور پاشا اور مصطفیٰ کمال میں ایک مسابقت اور رقابت تھی۔
حالات نے پلٹا کھایا اور جنگ ختم ہونے کے بعد جنوری 1919ء میں جو حکومت قائم ہوئی، اُس نے انور پاشا کو فوج سے جبری الگ کر دیا۔وہ فرار ہو کر جرمنی چلا گیا۔ اس کی غیرموجودگی میں اس کا کورٹ مارشل ہوا اور اُسے مُلک کو بلاوجہ جنگ میں دھکیلنے اور آرمینیا کے لوگوں کو وحشیانہ فوجی طاقت سے مُلک سے نکالنے کے علاوہ بغیر اجازت مُلک چھوڑ جانے کے جرم میں سزائے موت سُنائی گئی۔اِس اقدام نے مصطفیٰ کمال پاشا کا راستہ صاف کر دیا۔
جنگ کے بعد مصطفیٰ کمال مقتدر کی حیثیت سے تُرکی کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ اس نے 1924ء میں خلافت کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ تُرکی کو تجدّد اور مغرب نوازی کی راہ پر ڈال دیا۔ لباس، تراش خراش، طور اطوار سب بدل گئے۔ تُرکی زبان کی مغرب سے مماثلت پیدا کرنے کے لیے عربی، فارسی اور اردو رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط رائج کر دیا گیا، جس کی وجہ سے نئی نسلوں کا تعلق قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر اور عربی میں ذخیرۂ علم و ادب سے ٹوٹ گیا۔
دینی تعلیم اور نمازوں کے لیے اذان اور عورتوں کے پردے بلکہ حجاب یعنی سَر پر اسکارف رکھنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ آیاء صوفیا کو مسجد سے بدل کر میوزیم بنا دیا گیا۔ مصطفیٰ کمال کے فری میسن کا باقاعدہ رُکن ہونے کا تو کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، لیکن ینگ ترک تحریک اور ملٹری میڈیکل اسکول اکیڈمی کے نوجوان افسران کے قلوب و اذہان پر اس پُراسرار یہودی تنظیم کے اثرات بہت گہرے تھے۔
کم وبیش تین عشرے خلافتِ عثمانیہ میں کبھی زیرِ زمین، کبھی دُور دراز صوبوں میں، کبھی برطانیہ میں سرگرم رہنے والی، کمیٹی آف یونین اینڈ پراگریس کی سرگرمیوں کو دیکھیں، تو تُرک انقلاب میں شامل اس کے سارے کردار بیرونی قوّتوں کے آلۂ کار نظر آتے ہیں۔جنگ کے دوران وزیرِ دفاع انور پاشا اور اس کے گروپ کے خفیہ رشتے جرمنی سے تھے اور مصطفیٰ کمال برطانیہ کی مُٹھی میں تھا۔
اس تھیوری کے صحیح یا غلط ہونے سے قطعِ نظر، ایسے جائزے شائع ہوتے رہے ہیں کہ جزیرہ نُما گیلی پولی(Gellipoli) کی لڑائی میں برطانوی فوجوں نے خود جان بوجھ کر پسپائی اختیار کی اور مصطفیٰ کمال کو ہیرو بنانے کے لیے لڑائی جیتنے کا موقع دیا۔ مصطفیٰ کمال نے تُرکی کا چھے سو سال کے تاب ناک اور قابلِ فخر ماضی ہی سے نہیں، بلکہ اسلام سے بھی تعلق توڑتے ہوئے عثمانی خلافت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے نزدیک اسلام تُرکوں کا نہیں، بلکہ صرف عربوں کا مذہب تھا۔
سلطنتوں کا وجود و عدم وجود اور عروج و زوال قدرت کی عظیم اسکیم کا حصّہ ہے، لیکن اس سے پہلے یہ ہوتا رہا کہ ایک مسلم سلطنت کو زوال کی آندھیوں نے اُکھاڑ دیا، تو کسی دوسرے حصّے میں کسی اور مسلم سلطنت کا چمن آباد ہو گیا۔ لیکن بہت بڑا المیہ یہ ہوا کہ بیس ویں صدی میں عثمانی سلطنت کا گلستان اپنے ہی ہاتھوں ایسے اجاڑا گیا کہ اس کی آبادی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔اِس واقعے کو ایک سو سال ہو رہے ہیں۔ خلافت کی بحالی کی کئی تحریکیں اُٹھیں، لیکن خلافت کا ادارہ بحال نہیں ہو سکا۔
وطنی قومیتوں نے اِتنی گہری لکیریں کھینچ دی ہیں کہ اب کسی ایک مسلمان مُلک میں خلیفہ قرار دی جانے والی کسی شخصیت کی اتھارٹی، دوسرا مُلک قبول نہیں کرتا۔ جس سلطنت کی شوکت و عظمت اور رُعب و دبدبے کے جھنڈے چھے سو سال تک لہراتے اور جس کے رُعب و دبدبے سے تین برّ ِ اعظم کانپتے رہے، اُس کی قبا چاک ہوئی اور اس کی شان و شکوہ ایک خیالی افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔؎ ’’چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا…سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیّاری بھی دیکھ۔‘‘ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)