دنیا بھر میں رمضان المبارک کے احترام میں چھوٹے بڑے اسٹورز اور کاروباری ادارے روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں از خودکمی لاتے ہوئے شہریوں کو ریلیف دیتےہیںجبکہ وطن عزیز میں اس سال بھی قیمتوں کو جو پر لگے ہیں ،اس کے مطابق بیف،چکن، مٹن،انڈے اور بیکری کے سامان سے لیکر، کریانہ اور پھل سبزی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔غریب اور عام آدمی پریشان ہے کہ اس عالم میں وہ کیونکر اپنے کنبے کی کھانے پینے ضروریات پوری کرے گا۔چھوٹے بڑے شہروں اور دیگر آبادیوں میں گراں فروشوں کو پوچھنے والی سرکاری مشینری غائب ہے جبکہ اپنی حاضری ظاہر کرنے کیلئے مخصوص مقامات پر کارروائی کے بعد سب اچھا کی رپورٹ اوپر بھیجنے کا اہتمام دکھائی دیتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نےمصنوعی مہنگائی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کاسخت نوٹس لیا ہے۔لاہور دورے کے دوران اپنی سربراہی میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈاراور معاشی شعبے سے وابستہ وزارتوں،اداروں کے سربراہان واعلیٰ حکام اور چاروں وزرائے اعلیٰ کے ساتھ وڈیو لنک سمیت موقع پر موجودافسران کااجلاس بلایا۔اس موقع پر انہوں نے دوٹوک الفاظ میںخبردار کیا کہ رمضان المبارک میں چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کے حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ ملک میں چینی کاوافرذخیرہ موجود ہے اورصوبائی سطح پر اس کی ارزاں نرخوں پر فروخت کیلئے فیئر پرائس شاپس قائم کی گئی ہیں۔وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر عام آدمی کو سستی اشیائے خوردونوش کی فراہمی یقینی بنائیں۔انہوں نے چینی کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔ماہ صیام میں عام آدمی کی مجبوریوں سے کھیلنا وطن عزیز میں مہنگائی مافیے کا شروع دن سے وطیرہ چلاآیاہے۔یہ لوگ رمضان کا مہینہ شروع ہونےسے پیشتر ہی روزمرہ اشیائے ضروریہ ذخیرہ کرلیتے ہیںاور مارکیٹ میں بیٹھے گراں فروش مصنوعی قلت کو جواز بناکر روزہ داروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں،یہ سب ایک منظم طریقے سے ہوتاچلاآرہا ہے،جس کی وجہ سے اس مکروہ کام کی سرکوبی کرنے میں آج تک کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکی۔اس کی بڑی وجہ متعلقہ محکموں میں پائے جانے والے وہ بدعنوان اہل کار ہیں جومہنگائی اور ذخیرہ اندوز مافیا کی سرپرستی کرتے ہوئے اسے یہ دھندہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسری طرف اسے اتفاق کہیے کہ ان ہی میں شامل افسران و اہلکار پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ماہ صیام کے دوران کی جانے والی مصنوعی مہنگائی کے اثرات ہفتوں جاری رہتے ہیں اور عام اور غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پستا رہتا ہے۔اس سال بھی تین ماہ قبل جب چینی 132روپے فی کلو دستیاب تھی ،رفتہ رفتہ اس کی قیمتیں بڑھاتے ہوئے مخصوص مافیا آج اسے 165روپے پر لے آیا ہےاور انتظامی حلقے ان کے خلاف اس وقت متحرک ہوئے ہیں جب یہ لوگ اربوں نہیں تو کروڑوں روپے ناجائزمنافع کما چکے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے صورتحال کا جو نوٹس لیا ہے،اس کے تحت معاملے کی انکوائری نچلی سطح سے اوپرتک ہونی چاہئے ، اور ملوث افرادکے خلاف ضابطے کی قرار واقعی کارروائی ہونی چاہئے۔آمدہ رپورٹس کے مطابق ملک میں چینی سمیت کسی بھی کھانے پینے کی چیز کی کمی نہیں ۔اگر پھر بھی ایسا دکھائی دیتا ہے تو بلا شبہ قانون موجود ہے ،جس کے توسط سےذخیرہ اندوزوں،ملاوٹ اور گراں فروشوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ضروری ہے۔