28فروری2025ء کو امریکی صدر کے دفتر میں بھرپور ’’عزت افزائی‘‘ کے باوجود یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی امریکہ کے ساتھ معدنیات کی ڈیل کرنے جا رہے ہیں ۔جب تک یہ کالم اشاعت کے مراحل سے گزر کر آپ تک پہنچے گا، اس حوالے سے کوئی واضح اعلان کیا جا چکا ہو گا کیونکہ بھکاریوں کو اپنے مرضی کے فیصلے کا اختیار نہیں ہوتا۔ رسوائی اور جگ ہنسائی کے باوجود انہیں پرانی تنخواہ پر کام کرنا پڑتا ہے۔ اتنی اہم ترین ملاقات میں یوکرینی سربراہ ریاست کے لباس پر طنز کیا گیا اور کہا گیا کہ آپ یہاں رسمی لباس یعنی پینٹ کوٹ زیب تن کرنے کے بجائے یہ کس طرح کے کپڑے پہن کر آگئے ہیں۔ اس پر انہیں کہنا پڑا کہ جب جنگ ختم ہوگی تو کوئی ڈھنگ کا لباس پہننے پر غور کروں گا۔ یوکرین کے حالات کا تذکرہ ہوا تو زیلنسکی نے کہا، جنگ کے دوران سب کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ کو بھی اس طرح کی صورتحال درپیش ہو سکتی ہے لیکن آپ کے پاس ایک خوبصورت سمندر ہے ،خدا نہ کرے آپ کو اس طرح جنگ کا سامنا کرنا پڑے تو تب پتہ چلے گا کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بددعا نہیں دعا تھی مگر امریکی صدر کے دماغ کا ناریل چٹخ گیا اور وہ فرمانے لگے کہ آپ ہمیں نہ بتائیں کہ ہم کیا محسوس کریں گے۔ ہم ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہمیں بتائیں ،ہم کیا محسوس کریں گے۔ آپ ہمیں ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ کے پاس فی الحال کوئی کارڈ نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے آپ کے پاس کچھ پتے ہو سکتے ہیں۔ زیلنسکی نے بات کرنے کی کوشش کی کہ میں کوئی کارڈ یا تاش کی بازی نہیں کھیل رہا جس پر ڈونلڈ ٹرمپ مزید طیش میں آگئے اور کہنے لگے، آپ لاکھوں افراد کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہیں۔ اگر ہم نے آپ کو جنگی ساز و سامان نہ دیا ہوتا تو یہ جنگ دو ہفتوں میں ختم ہو گئی ہوتی اور پھر انہوں نے اپنے پیش رو امریکی صدرجوبائیڈن کو احمق قرار دے دیا۔اس ملاقات کے بعد یورپی ممالک نے زیلنسکی کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کی، اس کے حق میں بیانات جاری کیے۔ بعض ممالک نے تو اپنے فوجی دستے بھجوانے کی پیشکش بھی کی لیکن زیلنسکی کو یہ حقیقت بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ جب تک بائیں طرف ایک کا اضافہ نہ ہو، دائیں جانب کے تمام صفر بے معنی ہیں۔ یورپی ممالک نہ تو جنگ جاری رکھنے کیلئے 350بلین ڈالر فراہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ دفاعی ساز و سامان جو مزاحمت کیلئے ضروری ہوتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہونے کی صورت میں زیلنسکی کے اقتدار کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا یوکرینی صدر بد مزہ نہیں ہوئے اور اپنی طبع سے مجبور ہوکر امریکی ہم منصب کی شان میں کسی قسم کی گستاخی یا جگت بازی سے گریز کیا۔
امریکی قصر سفید کا وہ حصہ جو اوول آفس کہلاتا ہے اور امریکی صدر کے دفتر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، یہاں یوکرینی صدر کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اسے دیکھ کر مجھے انگریزی کی وہ مشہور کہاوت یاد آ گئی کہ جب کوئی مسخرہ محل میں داخل ہوتا ہے تو وہ بادشاہ نہیں بن جاتا بلکہ پورا محل سرکس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ چونکہ امریکی صدر ٹرمپ ماضی میں ریسلر رہے ہیں اور ولادی میر سیاست میں آنے سے پہلے کامیڈین تھے تو یہ دراصل کوئی سفارتی ملاقات نہیں بلکہ دو فنکاروں کے درمیان کارکردگی کا مظاہرہ تھا۔ مگر اس میں عقل والوں کیلئےبہت سی نشانیاں ہیں۔یوکرین کو یورپ میں سونے کی چڑیا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ملک معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ معدنیات کے ذخائر کے حوالے سے یوکرین پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں 19ملین ٹن گریفائٹ کے ذخائر ہیں جن سے الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریاں تیار ہوتی ہیں۔ لیتھئیم سے بھی بیٹریاں تیار کی جاتی ہیں اور اس کی بھی یوکرین میں فراوانی ہے۔ ٹائٹینیم جیسی قیمتی دھات جو ہوائی جہاز سے پاور اسٹیشنز تعمیر کرنے میں کئی جگہوں پر استعمال ہوتی ہے، اس کے دنیا بھر میں جتنے ذخائر ہیں ان کا 7فیصد یوکرین کے پاس ہے۔ اس کے علاہ 17نایاب قسم کی معدنیات پر یوکرین کی اجارہ داری ہے۔ 1991ء میں سویت یونین سے علیحدگی کے وقت یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کا تیسرا بڑا ذخیرہ بھی موجود تھا۔ یوکرین کے پاس 1900ایٹم بم اور 176بیلسٹک میزائل تھے۔ یوکرینی حکومت کو کہا گیا کہ اگر آپ اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیں، یہ سب جوہری ہتھیار واپس کر دیں تو ہم آپ کے دفاع کی ذمہ داری لینے اور تعمیر و ترقی کیلئے معاشی امداد دینے کو تیار ہیں۔ 31جولائی 1991ء کو سہہ فریقی معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ قومی سلامتی کی یقین دہانیوں پر یوکرین نے 1996ء میں سب جوہری ہتھیار واپس کر دیئے۔ 2009ء میں امریکہ اور روس نے مشترکہ بیان جاری کیا کہ 1991ء کے Budapestمعاہدے کی معیاد اگرچہ ختم ہو گئی ہے لیکن یوکرین کو قومی سلامتی کی جو یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں، ہم ان کے پابند ہیں ۔مگر روس نے مارچ 2014ء میں یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور پھر فروری 2022ء میں ایک بار پھر یوکرین پر چڑھ دوڑا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یوکرین کے 350ارب ڈالر کے ذخائر پر روس قابض ہے جبکہ باقیماندہ معدنیات کے ذخائر امریکہ ہتھیانا چاہتا ہے۔ بیانات کی حد تک تو زیلنسکی نے کہا تھا کہ میں اپنا ملک نہیں بیچوں گا مگر حقیقت یہ ہے کہ جرم ضعیفی میں مناجات بے اثر ہوجاتی ہیں اور مرگ مفاجات ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔یوکرینی صدر کے پاس کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں یا تو صدام حسین کی طرح برباد ہو جائے یا پھر امریکی صدر کے اشاروں پر ناچتا رہے۔ شاید آپ کویاد ہو کہ ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے عوض ایسی ہی پرکشش ترغیبات پاکستان کو بھی دی گئی تھیں۔ اگر تب ہمارے حکمران اس جھانسے میں آگئے ہوتے تو پاکستان کا کیا حال ہوتا؟