• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلا روزہ صبح کی پہلی گھنٹی، اخبار والے کا بل 50 روپےزیادہ دروازہ کھول کر چیختے ہوئے میں نے کہا ’’یہ کیوں بڑھا دیا‘‘۔ باجی 6سپلیمنٹ چیف منسٹر کے 24صفحات زیادہ ہیں میں غصے میں اخبار والے کو پیسے پکڑا کر کرسی پر بیٹھ کر سوچنے لگی کہ میں نے نوکری کرتے ہوئے ہر سیاست دان اور ڈکٹیٹر کے زمانے کو ’’گولڈن ٹائمز‘‘ کہنے والے صفحات ہی نہیں کتابچے، اشتہاردیکھے ہیں۔ پھر جب راتوں رات ، ایک کا دور ختم ہوتا ہے تو راتوں رات ہی ایسے مواد کے پلندے کو انفارمیشن منسٹری سے ٹرک بھر کر لاہور کی ایک بڑی بھٹی میں جھونکنے کو بھیج دیا جاتا۔ اب نئے ستارے، نئے آفتاب اور دانشور سامنے آئے ہیں، ایوب خان سے لیکر پرویز مشرف کے درمیان کبھی کبھی سیاست دان کہلائے جانے والے لوگ بھی آئے مگر سلسلہ تعریف اب تو اور وسیع ہوگیا کہ میڈیا کے پچاسوں چینل میں بھی اپنے کارندے بھیج کر تعریف کرواتے کرواتے آخر کو ہم مریم بی بی اور شہباز تک پہنچ گئے۔ شہباز صاحب کی حکومت نے دفتروں کی اصلاح کی ہے کہ 12ہزار چھوٹے ملازمین کو گھر بھیج دیا اور جب دیکھا کہ کشتی ہلنے لگی ہے تو 17نئے وزراء بعد ازاں بہت سے دانشور، خصوصی مراعات کے ساتھ ماتحت رکھ لئے۔ ابھی تو ہم جاہل پڑھے لکھے لوگوں کو صرف اپنی نوکری کے گریڈ کا پتاتھا یہ نہیں معلوم تھا کہ کرکٹ سے لیکر فوج اور ججز کو کیا مراعات، تنخواہیں اور ایم پی ون ملتا ہے۔ یہ سلسلہ ہماری ریٹائرمنٹ کے بعد شروع ہوا ۔ رشک آیا کہ کاش ہم بھی کہیں خصوصی تقریر لکھنے والے کی حیثیت سے اور بینکوں کے سربراہوں کی حیثیت سے کبھی غیر ممالک میں سفیر لگ جاتے اور کالم نگاروں اور دانشوروں کا درجہ حاصل کرتے تو لاکھوں روپے بھی بے وقعت لگتے ریٹائرمنٹ کے بعد۔ آج پھر جائزہ لیا جارہا ہے کہ جو لوگ عمر میں بڑھ گئے ہیں، ان سے نجات کیسے حاصل کریں ، یہ تو اس ملک میں نہیں ہوا کہ انڈیا کی طرح سینیٹ میں کم از کم 5سیٹیں ہوتیں، جو جوش صاحب، حفیظ جالندھری جیسے بزرگ جو ادب اور ملک کی پہچان کہلواتے، مجھے بار بار جاوید اختر ہر ملاقات میں یہ طعنے تو نہ دیتا، دیکھیں، کشور ناہید، ہم اور ہماری بیگم دونوں سینیٹر ہیں، انڈیا آیا کرو تو ہمارے سرکاری گھروں کو بھی عزت دیا کرو، میں ہنس کر کہتی، شکر ہے ہم سرکارکے کارندے نہیں بنے، ورنہ آج فیض صاحب کی عزت ہوتی نہ احمد فراز اور سب سے بڑھ کر حبیب جالب کو تو ہر حکومت میں سر پر بٹھایا جاتا سب خوفزدہ رہے کہ جالب کے ہوتے ہوئے شہر کو چھوڑ دینا چاہئے۔

اس ہفتے 30؍برس بعد سپریم کورٹ میں ایک اہم شاعر کا نام دہرایا گیا وہ بھی احمد فراز کا، جس کو ایک نظم پر سفید کپڑوں والے رات 12بجے آکر لے گئے، کوئی دو ہفتوں کی تلاش کے بعد پتا چلا کہ وہ اٹک قلعہ میں قید ہے۔ نہ شنوائی ہے نہ مقدمہ، بس روشندان سے شام کو ایک پلیٹ میں کھانا دیدیا جاتا اور بس۔

سیف الدین سیف صاحب کے سامنے یہ منظر ہوا تھا انہوں نے ہم لوگوں کو بتایا۔ اس زمانے میں چیف جسٹس کھلے عام، مال رڈ پر سیر کرتے تھے ہم بلا تکلف ان سے ملنے اور فریاد کرنے پہنچ گئے۔ بہر حال مسئلہ ٹیڑھا تھاکہ فوج سے کون بات کرے، قصہ مختصر بھٹو صاحب سے بات سن کر ضیا الحق تک پہنچی اور پھر فراز کو رہائی ملی (یہ تفصیل میں اپنی ایک کتاب میں لکھ چکی ہوں) بتلانایہ تھا کہ عدالتیں اس وقت کچھ کام کرتی دکھائی دیتی تھیں اوراب یہ طے نہیں ہو رہا کہ کہ کون سینئر ہے اور کون کس عدالت میں نوکری کرے گا، ابھی چونکہ کسی کو پھانسی دینے کا موقع نہیں آیا، ویسے بھی ملٹری کورٹس ہی یہ قصہ بھی نمٹائیں گی کہ کس کس کو بغاوت کے نام سرِ دار لایا جائے گا۔ اب سمجھ میں آیا کہ IMFکے افسر کیوں چیف جسٹس سے ملے تھے، ابھی ملک میں پھر حساب لکھنے آئے ہیں ۔ اس وقت رمضان کی برکتوں سے ہرایک حشمت اور فیاضی کا مظاہرہ کر رہا ہے بات تو یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک صوبے کے گورنر نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو روڈ رولر نے شہید کیا ان سب کو ایک ایک پلاٹ دونگا،’ آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لےکے رہ گئے‘ ان گورنر اور وہ بھی سندھ کا گورنر ہونے کےناطے بالکل MQMکی طرح سات خون معاف ہیں مصنوعی شیر ہیں مرضی ان کی کہ بچہ دیں کہ انڈا۔

ایک بات جو ہمارے پہلے روزے والے دن سے شروع ہوئی وہ ڈرامائی منظر ساری دنیا کے چینلز نے بار بار دکھایا ہے کہ کیسے زیلنسکی کو ٹرمپ نے بکری بنا دیا، اب وہ یورپی یونین کے سربراہوں کی گود میں بیٹھ کر بھی کہہ رہا ہے کہ میں معدنیات کا امریکا سے معاہدہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔

ہمارے وزیر اعظم نے اپنے سارے وزیروں کو کہا ہے کہ جو بھی ایک سال میں کیا ہے وہ حساب پیش کرو، ابھی وزیر ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھےکہ کیا لکھا جائے کہ حکم نامہ آیا کہ ’لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں‘ کہ اب اگر سارے وزرا کے کارنامے الم نشرح ہی ہونے ہیں تو پھرصلائے عام والا منظر کہ ایرانی سرکس لگایا ہوا ہے اور لوگ رمضان کے باوجود دیکھنے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم کا اعتماد دیکھئے کہ عوام کے درمیان، ہر وزیر اپنا کچا چٹھا بتائیں گے اور یوں وزیر اعظم سرخرو ہونگے، پکوڑے اور امرود جتنے مرضی مہنگے ہوں مگر روزہ رکھنے والوں کے دن بھر سوکھے منہ کو کچھ ذائقہ ملنا چاہئے۔ جن کو 5ہزار ملے ہیں وہ تیس دنوں میں ان پیسوں کو خرچ کرنےکا منصوبہ بنا رہے ہیں اس فہرست میں وہ مزدور شامل نہیں جو روزے کے دنوں میں گھروں کی چھتیں ڈال رہے ہیں اور شام کو کھوکھے پر جا کر روٹی اور چنے کی پلیٹ کھانے کے بعد دودھ پتی پی کر خوش رہتے ہیں، اب وزیر اعظم ہر گلی میں روزہ افطار کرتے ہر محلے میں سینکڑوں لوگوں تک اپنی فیاضی کا دامن نہیں پھیلا سکتے ہیں۔

تازہ ترین