اسلام آباد(رانامسعود حسین، این این آئی ) عدالت عظمی کے آئینی بنچ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی 9مئی کی دہشتگردی اور جلائو گھیرائو میں ملوث سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق عدالتی حکمنامہ کیخلاف دائر وفاقی حکومت کی انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کے دورا ن جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ مارشل لا ماورائے آئین اقدام ہے اس کی آئین میں کوئی اجازت نہیں،آئین میں مارشل لا کا کوئی ذکر نہیں،جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 270اے میں مارشل لا ء کے اقدام کو تحفظ دیا گیا تھا جبکہ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ مارشل لا ء دورکے اقدامات کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے،سینئر جج،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے بدھ کوکیس کی سماعت کی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کروائی گئیں جن میں موقف اختیار کیا گیا کہ سویلین ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جا چکا ، ان شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا ،دوران سماعت لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل،پی ٹی آئی کے سینٹر حامد خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا ، انہوں نے آرمی ایکٹ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ 1952 میں آیاتھا، جس میں پہلی ترمیم 1967 میں کی گئی تھی ، سازش کے حوالے سے پہلا مقدمہ 1951 میں ʼʼراولپنڈی سازش کیس‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا تھا،فوجی عدالتوں کیلئے آئین میں اکیسویں ترمیم کی گئی اور دوسال کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں ،تاہم لیاقت حسین کیس میں ملٹری کورٹس کا تصور ختم کردیا گیا تھا۔