• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اوسلو میں گزرے ہوئے میرے دوسال بہت یادگارتھے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ بھی حل کیا پاکستان سے ڈائریکٹ اوسلو کی فلائٹ ان کا دیرینہ مسئلہ تھا مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی تھی الحمدللہ یہ مسئلہ میرے دور سفارت میں حل ہوا۔میرے دور سفارت میں پاکستان اور ناروے کے درمیان بہترین تعلقات کا آغاز ہوا پاکستان میں ناروے کے سفیر اور اوسلو کے میئر کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔میں نے اوسلو کے میئر کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول کرلی۔وہ پاکستان گئے جہاں ان کا بھرپور استقبال کیا گیا ،گجرات میں تو انہیں ’’دولہا‘‘بنا کر گھوڑےپر بٹھایا گیا سر پر پنجابی پگڑی گلے میں ہار اور اس کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر ان کا استقبال کیا گیابلکہ ایک پاکستانی نے تو یہ بتایا کہ وہاں پیسے بھی لٹائے گئے۔واللہ اعلم ۔دوسرے شہروں میں بھی کم وبیش یہی صورتحال تھی وہ جب واپس اوسلو آئے تو ان کے دل میں پاکستان کے عوام کیلئے بہت مثبت جذبات تھے اوسلو کا سب سے بڑا ہال جہاں خروشیف روس کے ٹکڑےٹکڑے کرکے واپس آیاتو اوسلو کے اس ہال میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور جب وہ تقریر کے لئے مائیک پر آئے تو بہت دیر تک تالیاں بجتی رہیں ۔جب میری سفارت کے دو سال مکمل ہو گئے تو تھائی لینڈ میں بطور سفیر میری تعیناتی ہوئی اس موقع پر ناروے کے دفتر خارجہ نے میرے اعزازمیں ایک استقبالیہ دیا جس میں میری کارکردگی کو غیر معمولی طور پر سراہا گیا۔ اظہار خیال کرنے والوں میں اوسلو کے میئر کا نام شامل تھا انہیں ان کی خواہش پر اظہار خیال کی دعوت دی اور رہی سہی کسر بھی پور ی کر دی ۔میں اس روز بہت خوش ہوا کہ جس ذمہ داری سے میں کترا رہا تھا الحمدللہ میں نے وہاں پاکستان کی خدمت کا ریکارڈ قائم کر دیا یہ آپ اوسلو کے پاکستانیوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ میری آمد سے پہلے اور میرے جانے کے بعد میرے اعتراف خدمت میں کوئی کمی آئی یا وہ جوں کی توں ہے ۔

مجھے یورپ کے بہت سے ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے وہاں مقیم پاکستانی بھی عمومی طور پر بہت اچھے ہیں مگر کچھ زیادہ اچھے نہیں بھی ہیں ان ملکوں میں پاکستان سے گئے ہوئے جعلی پیروں کی بھرمار ہے جبکہ ناروے میں سات سو مساجد تو ہیں جو مختلف مسالک سے تعلق کی نشاندہی کرتی ہیں لیکن ناروے میں میں نے زیادہ پیر نہیں دیکھے یا میں ان کی زیارت سے محروم رہا۔ ناروے کے نارویجن پاکستانیوں کے تعلقات اپنے سفارخانے سے مثالی تھے ایک بات میں نے محسوس کی کہ میں نے صرف ایک مسجد میں یوم عید میلاد النبی ؐ کے حوالے سے منعقدہ جلسے میں جو اوسلو سے تین سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا ایک مولانا کی زبانی جاہلانہ گفتگو سنی جس حوالے سے میں نے بطور صدر محفل اصل صورتحال واضح کی، ان حضرت کو بطور خاص لندن سے مدعو کیا گیا تھا چنانچہ انہوں نے یہاں اپنی انگریزی کی دھاک بٹھانے کیلئے حضورنبی اکرمؐ،جبرائیلؑ اور بی بی فاطمہؓ کے مابین ہونے والی گفتگو یوں بیان کی جیسے یہ گفتگو انگریزی میں ہو رہی تھی اور یہ صرف مضحکہ خیز نہیں بلکہ گستاخانہ بھی لگ رہی تھی ۔ لاحول ولاقوۃ۔

عیدمیلادالنبی ؐکے موقع پر میں نے پاکستانی کمیونٹی کے نمایاں افراد کو مشورہ دیا کہ آپ جلوس کے رستے میں مختلف ڈرنکس کے اسٹال لگوائیں جہاں مشروبات کے علاوہ کوکیز بھی ہوں اور آپ سڑک بلاک نہ ہونے دیں صرف اس کے ایک حصے پر یہ اسٹال لگائیں تاکہ ٹریفک بھی گزرتا رہے اور پیدل چلنے والے لوگوں سے آپ اس خوشی کا اظہار بھی کرسکیں جو حضورؐ کی پیدائش کے حوالے سے پورے عالم اسلام میں مختلف طریقوں سے ہوتا ہے مجھے علم نہیں میری اس تجویز پر کتنے فیصد عمل ہوا ۔

اوسلو میں مختلف مواقع پر چھوٹی موٹی تقریبات ہوتی رہتی تھیں البتہ یوم پاکستان پر بڑی تقریبات منعقد کی جاتی تھیں ان تقریبات میں پاکستان کے اخبار کے رپورٹر باقاعدگی سے نظر آتے اور مسلسل نوٹس لیتے رہتے ایک دفعہ میں نے انہیں تقریب کے آغاز میں قاری صاحب کی تلاوت کے نوٹس لیتے بھی دیکھا ایک منظر ایسا بھی دیکھا جو میرے لئے بہت عجیب وغریب تھا یہ کوئی بڑی تقریب نہیں تھی ایک شراب خانے کے پاکستانی مالک نے اس کے لئے اپنی جگہ فراہم کی اور یوں منظر یہ تھا کہ فاضل مقررین کے پیچھے ہر برانڈ کی بوتلیں پڑی تھیں اور مقرر حضرات پورے جوش وخروش سے اپنے خیالات عالیہ کا اظہار فرما رہے تھے۔

اوسلو میں ادب سے محبت کرنے والے بھی کثیر تعداد میں موجودتھےاور وہ اپنے اپنے علاقے میں ’’دل کی بھڑاس‘‘ نکالتے رہتے تھے اوسلو میں دو بہت اہم شاعر بھی قیام پذیر تھے ایک مسعود منور اور دوسرے جمشیدمسرور، فیصل ہاشمی اس وقت بھرپور جوان تھے اور بہت اچھی شاعری کر رہے تھے انہیں شاید اس کا علم نہیں تھا میں نےانہیں یقین دلایا کہ آپ اس وقت بھی بہت اچھی شاعری کر رہے ہیں اور آگے چل کر تو آپ کمال کر دیں گے اور اب فیصل ہاشمی واقعی اتنی خوبصورت شاعری کر رہا ہے کہ جمشید مسرور اور منور مسعود کی موجودگی میں پورے اعتماد سے یہ شاعری سنا سکتا ہے ۔(جاری ہے )

تازہ ترین