کراچی (ٹی وی رپورٹ) پاکستان میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر اور افغانستان سے تنازع کے عوامل پر جیو نیوز کے پروگرام ʼʼجرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے سینئر صحافیوں وتجز یہ کاروں نے گفتگو کی۔
سینئر صحافی احسان اللہ ٹیپو ، سینئر صحافی افتخار فردوس اور سینئر صحافی طاہر خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد تنظیمیں پھر متحرک ہوگئی ہیں ،سرحد پار سے شدت پسندوں کی آمد پاکستان کیلئے بڑا خطرہ ہے، پروگرام میں تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ اگر پاک افغان تعلقات مزید بگڑے تو پاکستان کو مزید سکیورٹی خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
احسان اللّٰہ ٹیپو محسود کے مطابق، دہشت گردی میں حالیہ اضافہ متوقع تھا۔ جنوبی اضلاع سے نکل کر یہ کارروائیاں مالاکنڈ ڈویژن اور خیبر ڈسٹرکٹ تک پھیل چکی ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ داعش کے پی کی طرف سے یہ اشارہ ملتا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں بڑے طرز کے حملوں کی پلاننگ کر رہی ہے۔
احسان اللہ ٹیپو محسود نے کہا کہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ بھی متحرک ہو چکا ہے جس نے کراچی کے منگھو پیر اور لاہور میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، 2 دن پہلے لاہور میں بھی حملہ ہوا، ہم دیکھ رہے ہیں ان کی کارروائیوں میں پھیلاؤ نظر آرہا ہے
سینئر صحافی افتخار فردوس نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے اور ان دونوں ممالک کے درمیان تنازع کی بڑی وجہ لوکل ڈائنامکس ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر میں اضافہ صرف آغاز ہے ابھی اس میں مزید اضافہ ہوگا جس طرح تنظیمیں آپس میں گٹھ جوڑ دوبارہ کر رہی ہیں اور موومنٹ کراس بارڈر شروع ہوچکی ہے، اس کا تعلق صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں ہے بلکہ سینٹرل ایشیا اور باقی ممالک سے بھی لوگ آ رہے جس سے واضح ہے کہ پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
سینئر صحافی افتخار فردوس نے کہا کہ جہاں تک لوکل پہلوکی بات ہے پاکستان طالبان ٹی ٹی پی ایک بڑی تنظیم ہے لیکن حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا کہ حافظ گل بہادر نے اپنے آپ کو سولہ مختلف تنظیموں میں تقسیم کر دیا ہے اور جو گروپ ختم ہوگئے تھے انہوں نے دوبارہ الائنس بنایا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ متحرک ہو رہی ہیں اور سرحد پار سے شدت پسندوں کی آمد پاکستان کے لیے بڑا خطرہ بن رہی ہے۔
سینئر صحافی افتخار فردوس نے کہا کہ ٹی ٹی پی سمیت مختلف گروپ دوبارہ اتحاد بنا رہے ہیں جبکہ حافظ گل بہادر نے اپنی تنظیم کو 16 مختلف گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے جس سے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔
سینئر صحافی طاہر خان کے مطابق ٹی ٹی پی اور گل بہادر گروپ میں براہ راست رابطہ نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان کی کارروائیوں میں ہم آہنگی نظر آتی تاہم افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات بڑھنے سے شدت پسند گروہوں کو شہہ مل رہی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات جتنے خراب ہوں گے اتنے ہی سیکیورٹی چیلنجز بڑھیں گے اور شدت پسند کارروائیاں تیز ہوں گی۔
سنیئر صحافی طاہر خان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں حافظ گل بہادر اور ٹی ٹی پی کا آپس میں رابطہ نہیں ہے کیونکہ اگر ان کے درمیان کورڈینشن ہوتی تو شمالی وزیرستان سے بنوں میں حملہ نہ ہوتا۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر اسلامی تنظیمیں بھی ہوں جہادی دوست بھی ہوں قومیت اس میں معنی رکھتی ہے اس میں شک نہیں ہے۔
سنیئر صحافی طاہر خان نے کہا کہ علی امین گنڈا پور نے جو جرگہ والا اعلان کیا ہے اس کی مرکز سے مخالفت ہوئی یہاں بھی سیاست آگئی ہے میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ جرگہ بڑے بدلاؤ کا سبب بنے گا لیکن اگر تعلقات مزید خراب کیے جائیں گے تو ہمارے لیے مسائل مزید بڑھیں گے ۔