اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) پاکستان کے دو بڑے صوبوں سندھ اور پنجاب میں اراضی کی خرید و فروخت کی صنعت نہایت مشکلات اور جبر کا شکار ہے۔ جہاں ڈیولپرز اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کو الاٹمنٹ کے اولین مرحلے میں پراپرٹی رجسٹریشن کے وقت دہرے ٹیکسیشن کاسامنا ہے جس کی وجہ سےپنجاب میں ہزاروں پراپرٹی رجسٹریوں میں تعطل ہے کیونکہ ہائوسنگ سوسائٹیوں اور ڈیولپرز سے متعلق انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی تشریح میں صوبائی حکام میں اس کے اطلاق پر اختلاف ہے۔ چیئرمین آباد حسن بخشی نے جنگ سےگفتگو میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پنجاب بورڈ آف ریونیو (بی او آر) اور پنجاب لینڈ ریونیو اتھارٹی (پی ایل آر اے) میں سب رجسٹرار کے پیش ہزاروں رجسٹریاں اس لئے زیر التواء ہیں کہ مذکورہ دو اداروں کے خیال میں دفعہ 236 ۔سی کا اطلاق رجسٹریوں کے اجراء کے ساتھ سوسائٹیوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی ادائیگی پر بھی ہوتاہے جس سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر ڈبل ٹیکسیشن کا شکار ہے۔ واضح رہے کہ مذکوہ ٹیکس دفعہ 236۔ کےکے تحت غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی اور الاٹمنٹ پر لاگو ہے جبکہ دفعہ 236۔سی صرف غیر منقولہ جائیداد کے ٹرانسفر پر لگتا ہے۔ غیر منقولہ جائیداد کی ڈیولپرز کی جانب سے پہلی فروخت اور ٹرانسفر پر 236۔سی کا اطلاق ہوتا ہے جبکہ دفعہ 236۔کے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق ہے جو جائیداد کی پہلی فروخت اور پہلی رجسٹری پر لاگو ہے جس کی وصولی اقساط میں ہوگی۔ رابطہ کرنے پر پنجاب بورڈ آف ریونیو کے ممبر ٹیکس زمان وٹو نے کہا کہ سب رجسٹرار بی او آر کا ود ہولڈنگ ایجنٹ ہے جب بھی رجسٹرکے حق کا معاملہ درپیش ہوگا دفعہ 236۔سی لاگہ ہوگا تاہم جب ہائوسنگ سوسائٹی الاٹمنٹ اپنے پاس رکھتی اور سب ر جسٹرارکودرخواست نہیں دیتی تب معاملہ پنجاب بورڈ آف ریونیو کے اختیار میں نہیں آتا ۔ رابطہ کرنے پر ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر نجیب احمد نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لہٰذا وہ تبصرہ نہیں کرسکتے تاہم انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ڈیولپرز نے اٹھایا ہوا ہے اور ٹیکس حکام اس کاآئندہ بجٹ میں جائزہ لیں گے۔