• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب ایک نئی دنیا کے باشندے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جو اپنے مزاج، طور طریقے اور طرزِ احساس، یعنی ہر لحاظ سے الگے زمانوں اور پرانی دنیا سے یکسر مختلف ہے، اتنی مختلف کہ اس کا موازنہ کسی سطح پر بھی گزشتہ ادوار کی دنیا سے نہیں کیا جاسکتا۔ یوں تو آج کے انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں رونما ہونے والی بڑی بڑی اور اہم تر تبدیلیوں کی بنیاد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہونے والی ترقی پر ہے۔

اب چوں کہ ان دونوں شعبوں کا تعلق انسانی زندگی کے خارجی منظرنامے اور مادی احوال سے ہے، اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ترقی کے اثرات اور نتائج نمایاں اور کارآمد انداز میں اس دور کے افراد کی ظاہری زندگی میں ہمارے سامنے آتے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تبدیلیاں اس عہد کے انسان کے طرزِ احساس پر سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہی ہیں۔ 

طرزِ احساس کا تعلق تو ہر شخص کی ذاتی پسند، ناپسند، ترجیحات اور سوچ سے ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تبدیلیاں اگرچہ مادی نوعیت کی ہیں، لیکن یہ اس دورکے افراد کے اندر اُتر کر اُن کی فطرت اور روح یعنی اُن کے داخلی احوال کو متأثر کر رہی ہیں، یہی وہ بات ہےجو ہمارے عہد کے سماجی مفکرین، نفسیات کے ماہرین اور انسانی روح کے مطالبات سے سروکار رکھنے والے اہلِ دانش کو پریشان کر رہی ہے، پریشانی کا ایک سبب تو اس تبدیلی کی نوعیت ہے اور دوسرا اس کا تیزی سے بڑھتا ہوا گراف ہے۔

پہلے ہمیں ان تبدیلیوں کی نوعیت کو سمجھ لینا چاہیے۔ یہ تبدیلیاں دو طرح کے اثرات کی صورت میں ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق ہمارے ظاہر یا خارج سے ہے۔ مثال کے طور پر آج ہم دیکھتے ہیں کہ روزمرہ زندگی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے توسط سے نقل و حمل، رسل و رسائل اور روزمرہ کی کتنی ہی مادی ضرورتوں میں بہت آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔

دور دراز کے سفر، اشیا کی فراہمی اور باہمی روابط کے معاملے میں آج وہ سہولتیں ایک عام آدمی کو بھی حاصل ہیں کہ آٹھ نو دہائی یا ایک صدی پہلے کے لوگ جن کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ان میں کتنی تو ایسی ہیں جن کے بارے میں محض پینتیس چالیس سال پہلے کے لوگ سوچتے بھی نہیں ہوں گے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا منظرنامہ ہے، تاہم دوسری طرف یہ صورتِ حال بھی سامنے آرہی ہے کہ ان سہولتوں اور ترقی کے حاصلات نے انسانوں کے مابین رشتوں کی شکل پر اثر انداز ہو کر ان کی کایا کلپ کرنی شروع کردی ہے۔

انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ اپنے سماجی رشتوں کی ضرورت، نوعیت اور اہمیت کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کا دائرہ متعین کرنے میں اس نے ہزاروں برس کا سفر طے کیا ہے۔ ماہرین اسے غاروں اور جنگلوں سے نکل کر ایک تہذیبی اور سماجی انسان کی منزل تک پہنچنے کا سفر کہتے ہیں۔ تہذیبی اور سماجی زندگی کے اہم ترین حوالوں میں ایک انسان کا انسان سے رشتہ، باہمی وابستگی کا احساس اور مطمئن و آسودہ زندگی کے لیے ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ 

انسان نے اس حقیقت کا شعور بڑی بھاری قیمت چکا کر ایک طویل عرصے میں حاصل کیا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ عہدِ جدید کی ترقی کے اس منظر نامے میں سب سے بڑی زد انسان کے اسی شعور پر پڑ رہی ہے، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس عہد کی زندگی میں شامل ہونے والی چیزیں ایک انسان کو دوسرے انسان کی اہمیت، وقعت اور ضرورت سے بیگانہ کیے دے رہی ہے۔

ہمارے یہاں اوّل تو ایسے ادارے ہی نہیں ہیں کہ جو اپنے سماج میں پیدا ہونے والے اس نوع کے مسائل کو دیکھیں اور ان کے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اثرات کا مطالعہ کرتے ہوئے کوئی جائزہ پیش کریں۔ اگر یہ کام کسی طرح انفرادی دل چسپی اور کوشش کے نتیجے میں ہمارے یہاں انجام بھی پائے تو اس کے جائزے اور اعداد و شمار کی درستی اور صحت کا تعین کرنے کا سرے سے کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ 

دوسری طرف امریکا اور یورپ میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے کسی سروے یا جائزے کا کوئی اہتمام نظر نہیں آرہا ہے، حالاں کہ وہاں پر ایسے کتنے ہی ادارے ہیں جو اسی نوع کے مسائل پر توجہ مرکوز کرتے، ان کا جائزہ لیتے اور حاصل شدہ اعداد و شمار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے معاشرے میں افراد کی ذہنی اور جذباتی صورتِ حال کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ مسائل کی نوعیت کو اجاگر کرتے ہوئے وہ حکومتی اور سماجی و فلاحی اداروں کی توجہ ان مسائل کی جانب مبذول کرواتے ہیں۔

اب آپ پس ماندہ بلکہ ترقی پذیر دنیا کو تو چھوڑ دیجیے۔ ان کے یہاں تو انسانی زندگی کے مسائل اور ان سے نمٹنے کے وسائل میں جو تناسب ہے، اس کو دیکھ کر ہی یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ وہاں ایسے مسائل کو ترجیحی نکتۂ نظر سے کیوں نہیں دیکھا جاتا ہے۔ البتہ یہ سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ مغرب کا جہانِ اوّل جو روبوٹ سے انسان کی شادی، روبوٹ کے حقوق، انسانوں اور جانوروں کے باہمی رشتے، خلا کو مسخر کے بعد کرئہ ارض پر آنے والی تبدیلیوں کے اثرات اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوالوں پر غور و خوض میں نہ صرف مصروف ہے، بلکہ ان کی اہمیت اور ضرورت پر اصرار کرتے ہوئے وہ دوسروں کو بھی ان پر سوچنے کی دعوت دے رہا ہے، آخر اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخر میں اور تیسری دہائی کے پہلے نصف میں خصوصیت سے بدلتی ہوئی انسانی رشتوں کی صورتِ حال کے بارے میں کیوں نہیں سوچ رہا؟ یہ سوال بظاہر بہت سادا سا ہے، لیکن اس کے درست جواب تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو اس کی پیچیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں انسانی سماج اور اس کے رشتوں کے بارے میں سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہو رہی۔ بات تو خیر ہو رہی ہے، یہ بات زیادہ تر ان افراد اور اداروں کی طرف سے سامنے آرہی ہے جو انسانیات، سماجیات یا ان کے باہمی تعاون کے ادارے ہیں، ان کی سطح پر تو کچھ بات ہو رہی ہے۔ 

یہ امر ضرور توجہ طلب ہے کہ اس مسئلے پر اٹھائی جانے والی آواز مستحکم یا گونج دار اب تک امریکا اور یورپ میں بھی نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ اس پر ہم ذرا آگے چل کر بات کریں گے۔ فی الحال یہ دیکھتے ہیں کہ مغرب کے اہلِ نظر اس مسئلے کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔

امریکا اور یورپ میں گزشتہ برسوں میں یہ بات گاہے بہ گاہے کہی جاتی رہی ہے کہ جدید آلات، سوشل میڈیا اور ٹیکنولوجی کے فراہم کردہ نئے گیجٹس نے انسانی زندگی پر جو گہرے اثرات ڈالے ہیں، ان میں سے زیادہ تر منفی نوعیت کے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ خبر رسانی، تفریح اور معلومات کی فراہمی کے حوالے سے سوشل میڈیا اور گیجٹس کا کردار قابلِ تعریف ہے، لیکن یہ بات بھی پوری طرح کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ان ذرائع اور آلات نے انسان کے اندر خود مکتفی ہونے کا گہرا احساس پیدا کیا ہے۔ 

یہ احساس اگرچہ سراسر غلط ہے کہ انسان سب سے کٹ کر یا صرف اپنی جگہ بیٹھے ہوئے بھی اپنے کام کر سکتا اور مطمئن زندگی گزار سکتا ہے اور اسے سماجی زندگی کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم یہ احساس جدید دنیا کے لوگوں میں پھیلا ضرور ہے اور اس نے ان کے سماجی روابط کی صورتِ حال کو متأثر بھی کیا ہے۔ 

اسی سوچ کے تحت اس کے اندر خود پسندی، انا یا خود مرکزیت کا وہ احساس ابھرا جس نے اسے عدم برداشت کے ہیجان کی طرف دھکیلا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اواخر میں مغرب نے بھی انسان اور اُس کے سماجی روابط میں پیدا ہونے والی دراڑ یا انحطاط کو خاص طور سے محسوس کیا۔

اس مسئلے کو ترقی یافتہ دنیا میں کیا اور کتنا محسوس کیا گیا، اس کا کسی قدر اندازہ اُن بیانات، سوالات اور اطلاعات سے کیا جاسکتا ہے جن کی گونج وقتاً فوقتاً یورپ اور امریکا میں سنی گئی، بلکہ اب بھی اس نوع کی آوازیں سنی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں یاہو نیوز نے اس پر ایک تفصیلی خبر یا فیچر دیا کہ ٹرمپ کے الیکشن کے نتائج کے بعد امریکا میں جواں سال جوڑوں میں علایحدگی یا طلاق کے تناسب میں یک بہ یک غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 

یہ خبر ان اداروں اور ایسے افراد کے توسط سے دی گئی تھی جو خواتین کے حقوق اور تحفظ کے کام سے وابستہ ہیں۔ اس پریشان کن اضافے کا سبب یہ بتایا گیا کہ سیاسی منظرنامے نے ایک ہی گھر کے افراد کے درمیان خیالات کے اختلافات کی وجہ سے وہ الجھنیں، غصہ اور رنجشیں پیدا کیں کہ ان کے اندر ایک دوسرے کو چھوڑنے کے خیال نے جڑ پکڑ لی۔

اب ایک لمحے کے لیے اس مسئلے پر غور کیا جائے تو افسوس کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ حیرت بھی ہوتی ہے کہ امریکا میں صدارتی انتخابات کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور پھر یہ کہ سیاسی وابستگی کا احساس کیا ایسی شدت رکھتا ہے کہ انسان کو اپنے گھر کی تباہی کے شعور سے بیگانہ کر دے۔ مسئلہ اصل میں صرف اور صرف سیاست یا سیاسی نظریات کا نہیں ہے۔ 

بظاہر وہ اس تباہی کی بنیاد بنتے ضرور نظر آتے ہیں، لیکن اگر اس صورتِ حال کو ذرا گہرائی میں دیکھا جائے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ رشتوں کے مابین جڑے رہنے کا جذبہ اور وابستگی کی قوت مفقود ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے یہاں بھی یہ مسائل گزشتہ چند برسوں میں پیش آچکے ہیں، اگرچہ ان کی سطح اور شدت وہ نہیں رہی۔ 

جب کہ امریکا اور یورپ میں یہ معاملہ اب قابو سے باہر ہوتا نظر آتا ہے۔ ’’دی ٹیوی اسٹاک انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے تحت ’’میسج جرنلز‘‘ نے انسانی رشتوں اور ان کی صورتِ حال پر ۲۰۲۴ء میں متعدد مضامین اور جائزے شائع کیے ہیں اور ان میں اس مسئلے سے بھی بحث کی گئی ہے کہ علاحدگی کا یہ بڑھتا ہوا رجحان عدم برداشت اور وابستگی کے گہرے احساس کے فقدان کی وجہ سے آرہا ہے۔ 

وجوہ اور بھی ہوں گی، لیکن ان سب کے مرکز میں کسی نہ کسی شکل میں اپنی ذات کی برتری یا انا کو کارفرما دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن نے اس مسئلے کو ۲۰۲۴ء کے ’’ٹرینڈز‘‘ کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انسانی رشتوں کو بری طرح متأثر کر رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ، یونائٹیڈ نیشنز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے ہمارے یہاں کے حالات، واقعات، امکانات اور مسائل کے حوالے سے تجزیات مرتب کرتے ہیں تو ان کی تمام تر توجہ مذہبی شدت پسندوں، خواتین کے حقوق، بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق جیسے معاملات پر رہتی ہے۔ ۲۰۲۴ء میں بھی ہمارے یہاں کے حالات کے حوالے سے ایسے ہی جائزے اور اشاریے مرتب کیے گئے ہیں۔ عالمی فلاحی ادارے اس بار بھی ہمارے مسائل کی جڑ انھی چیزوں کو بتاتے ہیں۔ ہیومن رائٹس نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اس حوالے سے مذہبی شدت پسند گروہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 

چلیے، ہمارے یہاں تو یہ مسائل زیادہ نمایاں ہیں، اس لیے سارے تانے بانے انھی کے گرد بنے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خود امریکا اور یورپ میں انسانی حقوق کی پامالی، وحشت، دہشت اور ردِعمل کا جو منظر ۲۰۲۴ء میں سامنے آیا ہے، اس کی بنیاد کس پر ہے۔ امریکا میں تو گورے اور کالے کا جھگڑا پرانا اور بہت سامنے کا ہے، لیکن جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے سوئزر لینڈ جیسے ملکوں میں عدم برداشت کا جو رویہ سامنے آرہا ہے، اس کو کس طرح دیکھا جائے گا؟ 

عوامی سطح کے علاوہ یورپ کے ممالک میں بعض مواقع پر حکومتی سطح پر بھی جس ردِعمل کا اظہار کیا گیا ہے، وہ خود بھی چشم کشا ہے۔ تفصیلات کی زیادہ گنجائش نہیں، اس لیے صرف ایک مثال دیکھ لیجیے۔ غزہ کی صورتِ حال پر امریکا، جرمنی، فرانس، کینیڈا اور سوئزر لینڈ میں ہونے والے ردِعمل پر حکومتی اقدامات کو ریاستی جبر کے سوا کس زاویے سے دیکھا جاسکتا ہے؟

سائنس ڈائریکٹ کا میگزین کمپیوٹرز اِن ہیومن بیہیوئر‘‘ کا شمارہ ۱۶۵، اپریل ۲۰۲۵ء میں منظرِعام پر آئے گا۔ اس میں کئی ایک تحقیقی مضامین اور تجزیے شامل ہیں جنھیں آن لائن دیکھا جاسکتا ہے۔ ان مضامین میں خصوصیت سے ان مسائل پر بات کی گئی ہے جو آج کے انسان کی شخصیت سازی اور مزاج کی تشکیل میں گیجٹس کے کردار کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ 

ان میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس، تصویر کی درستی کرنے والے فلٹرز، سیکسٹنگ اور سماجی تعلقات کی سطحیت جیسے پہلو نمایاں ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سب عناصر اس دور کے انسان (جن میں ۱۸ سے ۹۳ سال تک کے لوگ شامل ہیں) کو ایک ایسی سمت میں دھکیل رہے ہیں جہاں وہ سوچنے سمجھنے اور ذمہ داری کے احساس سے عاری ہو رہا ہے۔ 

اس کے اندر رسمی لہجے یا فوری اظہار کی ترسیل اور وصولی کا رویہ شدت سے پیدا ہو رہا ہے۔ وہ ہر معاملے میں عجلت پسند ہو رہا ہے۔ اپنے کسی عمل کی اسے کیا قیمت چکانی پڑے گی، یہ سوچنے کی اسے فرصت ہے اور نہ ہی خواہش۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سوشل میڈیا ایک ایسے عفریت کی شکل اختیار کر رہا ہے کہ جو تیزی سے انسانی رشتوں کو نگلتا چلا جا رہا ہے۔

اس مرحلے پر ایک لمحہ رک کر ہمیں ذرا تحمل اور ذمہ داری سے غور کرنا چاہیے کہ ان جدید کھلونوں (گیجٹس) کی وجہ سے امریکا اور یورپ کے کھلے ہوئے معاشرے اور (نام نہاد) روشن خیال، ترقی یافتہ دنیا کے باشندوں کی زندگی میں ایسے ہول ناک مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو ہم جیسی قومیں نئی دنیا کے اس منظرنامے میں کن حالات کا شکار ہو رہی ہوں گی اور آگے کس طرف قدم بڑھا رہی ہوں گی۔ 

ہمیں چاہے اس حقیقت کا اعتراف تکلیف اور ندامت کے ساتھ ہی کرنا پڑے، لیکن کرنا ضرور چاہیے کہ آزادی، حقوق، ترقی اور کامیابی کے اہداف کو سر کرنے کا دعویٰ کرتی اس جدید دنیا کا انسان اپنی اصل فطرت سے محرومی کے رستے پر ہے۔ اس کے آگے آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنی کی جو مسافت ہے، اس کی آخری منزل ہول ناک تنہائی اور مہیب تاریکی ہے۔ 

رشتوں کی وہ کہکشاں جو اُس کی ذات کو وقیع بناتی اور زندگی کو معنی عطا کرتی ہے، بجھتی جا رہی ہے اور وہ اپنی ذات کے اندھے کنویں میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ تباہی خود اس کے اپنے ہاتھوں ہی دائیں بائیں موجود جدید دنیا کے دل لبھا لینے والے کھلونوں کے ذریعے آرہی ہے۔ اور اس تباہی سے اسے کوئی بھی اس وقت تک نہیں بچا سکتا جب تک وہ ان جدید گیجٹس کی باندھی ہوئی آنکھوں کی پٹی کو نوچ کر پھینک نہیں دیتا۔

آخر میں اب آئیے اس سوال کی طرف جو ہم نے گزشتہ سطور میں ایک مقام پر اٹھایا تھا کہ اکیسویں صدی کے اس ربع اوّل تک کی صورتِ حال انسانی ذات، جذبات اور رشتوں کی تباہی کا جو نقشہ دکھا رہی ہے، عالمی مقتدرہ اور اس کے انسانی حقوق کے ادارے اس پر توجہ کیوں نہیں دے رہے؟ 

اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ وہ ان مسائل پر توجہ دینا ہی نہیں چاہتے، اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ مسائل ہی نہیں ہیں، بلکہ اس کرئہ ارض کے انسانوں کو وہ روبوٹ جیسی بے حس، بے شعور اور تہذیب و اقدار سے عاری زندگی کی جس منزل تک لے کر جانا چاہتے ہیں، یہ سب مراحل اس راہ کے سنگِ میل ہے۔ لہٰذا وہ اس پر کیوں بات کریں گے۔