• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاذب احمد

رمضان کا با برکت مہینہ تھا۔ میں عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا تو نظر اس بچے پر پڑی۔ وہ ایک نو سال کا بچہ تھا جو مسجد کے کونے میں اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا؟کپڑوں میں پیوند لگا تھا، مگرنہایت صاف ستھرے تھے۔

اس کے ننھے ننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔ بہت سے لوگ اس کی طرف دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ وہ بالکل بےخبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ اٹھا، میں نے آگے بڑھ کر اس کا ننھا سا ہاتھ پکڑا اور پوچھا، ’’اللہ پاک سے کیا مانگ رہےتھے‘‘؟

اس معصوم فرشتے نے کہا کہ’’ ، میرے ابوکا انتقال ہوگیا ہے، ان کےلئے جنت، میری امی ہر وقت روتی رہتی ہیں ان کے لئے صبر، میری بہن ماں سےعید کے لیے کپڑے مانگتی ہے، اس کے لئے رقم۔‘‘

میں نے پوچھا، ’’کیا آپ اسکول جاتے ہو؟‘‘

بچے نے کہا،’’ہاں جاتا ہوں‘‘۔

’’کس کلاس میں پڑھتے ہو؟‘‘میں نے پوچھا

’’نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا، ماں چنے بنا کردیتی ہے وہ اسکول کے بچوں کو فروخت کرنے جاتا ہوں اسکول کے بچے مجھ سے چنے خرید لیتے ہیں، ہمارا یہی روزگار ہے، بس اُن، پیسوں سے ہمارا بامشکل گزر بسر ہوتا ہے۔‘‘بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رہا تھا۔

’’تمہارا کوئی رشتہ دار نہیں؟‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی میں بچے سے پوچھ بیٹھا۔

’’امی کہتی ہیں غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔ امی کبھی جھوٹ نہیں بولتیں لیکن انکل جب ہم کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور میں کہتا ہوں، امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو وہ کہتی ہیں میں نے کھالیا ہے۔ اس وقت لگتا ہے وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔‘‘

بیٹا! اگر گھر کا خرچ مل جائے تو تم پڑھو گے؟

’’بالکل نہیں کیونکہ، تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتےہیں‘ہمیں کسی پڑھے لکھے لوگوں نے کبھی نہیں پوچھا، پاس سے گزر جاتے ہیں۔ ہر روز اسی مسجد میں آتا ہوں کبھی کسی نے نہیں پوچھا، یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے، مگر، ہمیں کوئی نہیں جانتا۔ یہ کہہ کربچہ زور زور سے رونے لگا۔ انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی بن جاتے ہیں نا؟‘‘

میں اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکا، اگرچہ میرے مالی حالات بہت اچھے نہیں لیکن میں نے اس بچے کے مالی مدد اور اسے تعلیم دلانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے بچے سر پر ہاتھ رکھا اور گلےسے لگایا۔

ایسے کتنے معصوم بچے ہیں جو حسرتوں سے زخمی ہیں۔

پیارے بچو! بس ایک کوشش کیجئے اور اپنے اردگرد ایسے ضروت مند یتیموں اور بےسہارا بچوں کی مدد کیجئے۔ اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں شاید اس کو بھی کھانے کی ضرورت ہو، رمضان کے اس مہینے میں اپنی افطاری میں سے کچھ حصہ ان کے لیے بھی نکالیں۔

ان کی تعلیم میں مدد کریں۔ رمضان المبارک صبر، اخوت، بھائی چارے کا درس دیتا ہے، اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ بھلائی کے کام کرنے چاہیے۔ اس ماہِ مبارک میں اللہ پاک کو راضی کرنے والے کام کریں۔

یاد رکھیں کہ ہر وہ کام جس سے کسی دوسرے شخص کی مدد ہو اور اسے کسی مشکل سے نجات ملے، آپ کی بھی نجات کا ذریعہ بنے گا۔