• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے سوشل پلیٹ فارمز کا استعمال بڑا چیلنج

کراچی( ثاقب صغیر )دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے سوشل پلیٹ فارمز کو استعمال کر کے اپنی آپریشنل صلاحیتوں کو بڑھانے اور نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے جیسے اقدامات دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔دہشت گرد تنظیموں نے آن لائن پلیٹ فارمز کو آپریشنل پلاننگ ٹولز میں تبدیل کر دیا ہے۔Phsical presence کے بغیر دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس ( اے آئی ) سمیت جدید ٹیکنالوجی دہشت گردی کے پھیلاؤ کے لیے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو نئی راہیں فراہم کر رہی ہے۔اے آئی کے ذریعے باآسانی ڈیپ فیک مواد تیار کیا جا رہا ہے۔دہشت گرد ایڈوانس ٹیکنالوجی جس میں ڈرون ، جی پی ایس سسٹم، انکرپٹڈ میسیجنگ سروز،فائل شیرنگ پلیٹ فارمز، آرکائیونگ سائٹس،وی پی این اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا موثر استعمال کر رہے ہیں۔خاص طور پر انکرپٹڈ میسجنگ ( Encrypted messaging) ایپلی کیشنز نے دہشت گرد تنظیموں کو منظم ہونے اور رابطے کے لیے محفوظ چینل فراہم کیے ہیں۔ڈارک ویب فورمز بھی غیر قانونی سرگرمیوں اور نظریاتی تبادلوں کے لیے ان تنظیموں کے لیے ایک محفوظ ذریعہ ہیں جہاں نوجوانوں کو اپنے نظریات کا حامی بنایا جا رہا ہے۔مختلف تنظیموں اور انتہا پسندوں کی جانب سے اے آئی سمیت جدید ایپلیکیشنز کے ذریعے مختلف مقامی زبانوں میں ٹارگیٹڈ پروپیگنڈے کااستعمال کرتے ہوئے اپنا پیغام پہنچایا جا رہا ہے اور نوجوان ان کا خاص ہدف ہیں۔ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دہشت گرد تنظیمیں فنڈ ریزنگ کے ساتھ نوجوان کو بھرتی کر کے اپنی آپریشنل صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ان پلیٹ فارمز کو بطور ڈیجیٹل ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔دہشت گرد گروپ اور افراد فنڈنگ کے لیے کرپٹو کرنسی سمیت دیگر ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال کر رہے ہیں۔دہشت گرد تنظیموں کو اب ٹریننگ کیمپس کی ضرورت نہیں رہی ۔آن لائن پلیٹ فارمز انھیں متنوع اقوام کے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔پہلے ان کی سرگرمیاں کسی ایک علاقے ، ملک یا خطے تک محدود تھیں تاہم آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے وہ دنیا بھر میں اپنا بیانیہ اور پیغام پہنچا رہے ہیں اور بغیر ہتھیار ( Weapon less) دہشت گردی کر رہے ہیں ۔یہ گروپ اپنے آپریشنل سیلز کو مختلف بر اعظموں میں پھیلانے کے ساتھ آن لائن راہنمائی بھی دے رہے ہیں۔ایک جانب انٹیلیجنس اداروں کے لیے ان پلیٹ فارمز کی نگرانی کرنا، پتا لگانا اور پروپیگنڈے کا توڑ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے تاہم دوسری جانب یہی ٹیکنالوجی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور انسداد دہشت گردی کے لیے کام کرنے واکے اداروں کے لیے بھی مواقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ نقصان دہ سائٹس، ایپلیکیشنز ،میسیجنگ سروسز اور دیگر پلیٹ فارمز پر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا کھوج لگائیں اور انھیں ہدف بنانے کے ساتھ ان پلیٹ فارمز پر جوابی بیانیہ بھی تیار کریں۔ ٹیکنالوجی خاص طور پر مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے دہشت گرد تنظیموں کے رابطے اور بھرتی کے طریقہ کار کو تبدیل کر رہی ہے۔انسداد دہشت گردی کے لیے بنائی گئی روایتی حکمت عملی اب ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے اور اداروں کو اس حوالے سے ایک مکمل ،ہمہ گیر اور جامع منصوبہ بندی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔یہ بات اب مان لینی چاہیے کہ انفارمیشن وار فئیر بھی روایتی ملٹری وار فئیر کی طرح اہم ہے۔ڈیجیٹل وار فئیر کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لیے کام کرنے والے ادارے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ انٹیلجنس شئیرنگ کریں اور مل کر کام کریں۔

اہم خبریں سے مزید