11 مارچ کی دوپہر منگل کے روز دہشت گرد تنظیم بی ایل اے نے جعفر ایکسپریس پر اُس وقت دھاوا بول دیا جب وہ سبّی کے قرب و جوار میں داخل ہو چکی تھی اور چار سو کے لگ بھگ مسافروں کو لیے کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی۔ اُن میں سے زیادہ تر فوج سے تعلق رکھتے تھے اور چھٹیاں گزارنے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ آبائی علاقوں کی طرف جا رہے تھے۔ دس روز گزر جانے کے باوجود یہ ٹرین حملہ سیاسی، صحافتی اور پارلیمانی حلقوں میں موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے۔ ہمارے بعض تجزیہ نگاروں نے اِس واقعے کو پاکستان کا ’’نائن الیون‘‘ قرار دِیا ہے جو منگل ہی کے دن 11 ستمبر 2001ء کو اَمریکہ میں وقوع پذیر ہوا تھا جس کی کوکھ سے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ نے جنم لیا جس نے طاقت کے طوروطریق یکسر بدل ڈالے تھے۔ اُس روز علی الصبح انیس دہشت گرد کمرشل فلائٹس سے امریکہ میں داخل ہوئے اور چار کمرشل طیارے اغوا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اُنہوں نے دو طیارے نیویارک میں واقع ٹریڈ سنٹر کے ٹوئن ٹاور سے ٹکرا دِیے جس کے سبب پچاس منزلہ عمارت لرزہ براندام ہو گئی جس میں امریکی معیشت کی جان تھی۔ اُس کی مرمت میں آٹھ ماہ لگے اور اِس دوران امریکہ کو دس ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ اُسی روز دہشت گرد تیسرے طیارے کو پنٹاگون لے گئے جہاں امریکہ کے سب سے طاقتور اِدارے کا ہیڈکوارٹر ہے۔ اُسے بھی بہت گزند پہنچی اور دُنیا کی واحد سپرپاور کا سانس اکھڑنے لگا۔ اللہ کے فضل سے پاکستان ایسی سخت جاں صورتِ حال سے محفوظ رہا۔
نائن الیون کے برعکس پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے ایک انتہائی پیچیدہ اَور خطرناک صورتِ حال پر چھتیس گھنٹوں میں قابو پا لیا۔ تیس چالیس کے لگ بھگ دہشت گردوں نے ساڑھے تین سو سے زائد مسافروں کو اَپنا قیدی بنا لیا تھا اور اُن کے درمیان اپنے خودکش بمبار بٹھا دیے تھے۔ جوابی حملے سے محفوظ رہنے کے لیے اُنہوں نے بچوں اور خواتین کو اَپنی ڈھال بنا لیا تھا۔ دہشت گردوں نے اپنے سخت مطالبات حکومت کو پیش کر دیے تھے اور بھارتی ایجنٹ جو اُن دہشت گردوں کے سرپرست بھی تھے، سرِعام کہہ رہے تھے کہ پاکستان کو سرنڈر کرنا پڑے گا۔ فوج کی تربیت یافتہ فورس ’’ضرار‘‘ نے خودکش بمباروں کو اِس طرح ہِٹ کیا کہ وہ دَم توڑتے چلے گئے اور چند ہی گھنٹوں میں 33 دہشت گرد جہنم واصل ہو چکے تھے۔ اِس پر خارجی طاقتیں حواس باختہ ہو گئیں جو بلوچستان کے ذریعے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ اِس عظیم الشان کارنامے پر پوری قوم اپنی عسکری اور سیاسی قیادت پر جتنا بھی فخر کرے، کم ہے۔ وہ دِفاعِ پاکستان کے محافظوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کر رہی ہے اور اُن میں دَہشت گردی کے خلاف مکمل طور پر جنگ جیت لینے کا جذبہ پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہو گیا ہے۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حملہ آوروں کو اِبتدا میں سرپرائز کی فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ امریکہ اپنے تمام تر مادی و اِنسانی وسائل کے باوجود نائن الیون کے دہشت گردوں کا سراغ وقت سے پہلے نہیں لگا سکا تھا، مگر حادثے کے فوراً بعد اُس نے دوررس اقدامات اٹھانا شروع کر دیے تھے۔ پاکستان کی قیادت کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اُس نے دہشت گردوں کے ناگاہ حملے کو فوراً ہی دبوچ لیا اور پاکستان کو بہت بڑی تباہی سے محفوظ کر لیا۔ اِس فورس کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے اُس کی کوتاہیوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے، مگر اِس میں توازن حددرجہ لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی نے جو اِعلامیہ جاری کیا ہے، اُس میں فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں، رینجرز اور پولیس کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اِس عزم کا پوری یکسوئی سے اظہار کیا ہے کہ پوری قوم اُن کی پشت پر کھڑی ہے اور بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔
جعفر ایکسپریس کے اغوا کے دوران بلاشبہ چند دَرجن اہلِ وطن شہید اور زخمی ہوئے ہیں جس پر ہر طرف سے دکھ اور کرب کا اظہار کیا جا رہا ہے اور بفضلِ خدا اِس شر سے خیر کے اَن گنت پہلو نکل رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اِنسانی حقوق کی تنظیموں اور پارلیمان کی قومی سیکورٹی کمیٹی نے اِس حادثے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی نے بھی جعفر ایکسپریس پر حملے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اِس طرح ایک بڑا وَسیع اتفاقِ رائے پیدا ہو گیا ہے۔
یہاں یہ امر بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے کہ جناب شکیل انجم نے اپنے کالم میں یہ بات پورے وثوق سے لکھی ہے کہ بلوچ پاکستان سے محبت کرتے ہیں، چنانچہ وہ بی ایل اے کے باغیوں کو بلوچ تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں اور اُنہیں لانگہو قوم قرار دَیتے ہیں جو بلوچستان کے نواحی علاقوں سے نکل کر پہلے بلوچستان سے ملحقہ پہاڑوں پر آباد ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ اِس قوم کے اندر ایک بھی ایسی خوبی نہیں پائی جاتی جو بلوچ قوم کی تہذیبی شناخت ہے۔ جناب شکیل انجم کی تحقیق کے مطابق ماہ رَنگ بلوچ کا باپ عبدالغفار اَپنے نام کے ساتھ لانگہو لگاتا تھا۔ وہ بی ایل اے کا رُکن تھا اور اَندرونی لڑائی میں مارا گیا تھا۔
ٹرین کے اغوا کے واقعے نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ دہشت گردوں کا تمام تر انحصار خارجی طاقتوں پر ہے اور ملک میں اُن کی جڑیں موجود ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 33 دہشت گردوں کی ہلاکت پر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ سب سے اہم بات یہ کہ پوری عالمی برادری دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ امریکہ، روس، چین اور یورپی یونین نے پاکستان کے ساتھ غیرمعمولی ہمدردی اور حمایت کا اظہار کیا ہے، جبکہ اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ارکان نے ازخود ایک بیان جاری کیا ہے جس میں تمام ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ دَہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں۔ پورا عالمِ اسلام پاکستان کی جرأت و بصیرت کو خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے۔ یہ انتہائی مناسب وقت ہے کہ پوری دانائی اور قوتِ ارادی سے خارجی عناصر کا قلع قمع کر دیا جائے اور پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا جائے۔