• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بچپن کی یادوں کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ سائنسدانوں نے وجہ بتادی

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو 

سب کے ذہن میں یہ سوال کبھی نہ کبھی ضرور آتا ہے کہ انسان کی یادداشت جتنی بھی تیز ہو لیکن پھر بھی وہ اپنے بچپن کی یادیں کیوں بھول جاتا ہے؟

اب سائنسدانوں نے اپنی حالیہ تحقیق میں اس سوال کا ممکنہ جواب تلاش کرلیا ہے۔

ییل یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسان بچپن کی یادیں اس لیے بھول جاتا ہے کیونکہ وہ یادداشت میں مکمل طور پر محفوظ نہیں ہو پاتیں۔

محققین نے اس تحقیق کے لیے 26 شیر خوار بچوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا تھا، ایک گروپ میں 12 ماہ سے کم عمر جبکہ دوسرے گروپ میں 12 ماہ سے زائد عمر کے بچوں کو شامل کیا اور ان بچوں کو ایف ایم آر آئی مشین میں رکھ کر انہیں مختلف تصاویر دکھائی گئیں۔

ایف ایم آر آئی مشین میں بچوں کو ہر تصویر 2 سیکنڈ کے لیے دکھائی گئی۔

اس دوران محققین بچوں کے دماغی حصّے’ہیپو کیمپس‘ کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کر رہے تھے کیونکہ دماغ کا یہ حصّہ انسان کے جذبات، یادداشت اور اعصابی نظام سے جڑا ہوتا ہے۔

تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ عمر کے بچوں میں’ہیپو کیمپس‘ زیادہ متحرک ہوتا ہے اور یادداشت پر مبنی فیصلہ سازی و شناخت میں مدد فراہم کرنے والا دماغی حصّہ’اوربیٹو فرنٹل کورٹیکس‘ بھی متحرک ہوتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ بالغ افراد یادیں جمع کرتے اور دہراتے ہیں کیونکہ وہ ان کے تجربات سے جڑی ہوتی ہیں لیکن ننھے بچوں میں’ہپو کیمپس‘ ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ اس عمل کو غیر ضروری تصور کرتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ فی الحال یہ واضح نہیں ہوسکا کہ 12 ماہ کے بعد بچوں میں’ہیپو کیمپس‘ زیادہ متحرک کیوں ہوتا ہے مگر یہ واضح ہوگیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور یادداشت کی معاونت کے لیے’ہپوکیمپس‘بہتر ہوتا ہے۔

سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید