• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکیہ میں طویل عرصے سیاسی استحکام کے بعد حالات نے اس وقت یکسر پلٹا کھانا شروع کردیا جب 18 مارچ کی رات کو ترکیہ کےتقریباً تمام نیوز چینلز نے استنبول کے مئیر اکرم امام اولو کی ڈگری کے 32 سال بعد کالعدم قراردیے جانے اور ان کے ترکیہ کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی راہ مسدود ہونے سے متعلق خبریں نشر اور ٹاک شوز پیش کرنا شروع کردئیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکیہ کے آئین کی رو سے صرف وہی شخص صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہے جو یونیورسٹی گریجویٹ ہو۔ اس سے قبل ترکیہ کی مین ا پوزیشن جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی نے 23 مارچ بروز اتوار اپنے صدارتی امیدوار کیلئے ابتدائی انتخابات کروانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ سی ایچ پی کے ان ابتدائی صدارتی امیدواروں کے طور پر دو ناموں سے متعلق مقابلہ ہونے کی توقع کی جا رہی تھی جن میں ایک استنبول کے مئیر اکرم امام اولو اور دوسرے انقرہ کے مئیر منصور یاواش تھے لیکن حکومت کی جانب سے اکرم امام اولو کی ڈگری کالعدم قرار دیے جانے کے اعلان کے بعد انقرہ کے مئیر منصور یاواش نے اکرم امام اولو کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کردیا اوریوںری پبلکن پیپلز پارٹی CHPکے درمیان صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لینے کیلئے جو رسہ کشی جاری تھی وہ ختم ہوگئی اور پارٹی میں ناقابلِ یقین حد تک یک جہتی اور اتحاد قائم ہوگیا۔ اس دوران منصور یاواش نے بیان دیا کہ میرے خیال میں آج 15 ملین کے لگ بھگ ووٹر نے بغیر کسی دبائو کے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا جس سے قبل از وقت انتخابات کروانے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

امام اولوکی ڈگری کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ری پبلیکن پارٹی میں یک دم طوفان اور تلاطم برپا ہوگیا اور اس تلاطم نے اس وقت شدت اختیار کرلی جب19 مارچ کو صبح سویرے پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے استنبول پراسیکیوٹر آفس کی جانب سے انہیں’’مسلح دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے‘‘، ’’ایک مجرمانہ تنظیم قائم کرنے،‘‘، ’’ٹینڈر زمیں دھاندلیاں کرنے‘‘ اور ’’رشوت لینے‘‘ کے الزام میں چار روز کیلئے حراست میں لینےکا اعلان کر دیا جبکہ وزارتِ داخلہ نے عدلیہ کی جانب سے سنائی جانے والی اس سزا کے نتیجے میں امام اولو کو اُن کےمئیر کے عہدے سے بھی معطل کر دیا۔ ترکیہ جہاں طویل عرصے سے بلکہ کئی برسوں سے سیاسی استحکام قائم تھا اور اکا دکا چھوٹے پیمانے پرمظاہروں کے علاوہ کبھی بڑے پیمانے پر مظاہرے نہیں دیکھے گئے تھے راتوں رات لوگوں نے جوق در جوق سڑکوں پر نکلتے ہوئے ترکیہ بھر میں نہ ختم ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ شاید یہ ری پبلکن پیپلز پارٹی کی تاریخ میں سنہ 2000کے بعد پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ جماعت تنہا مسلسل کئی روز سے بقول اس جماعت کے پانچ لاکھ سے ایک ملین کے لگ بھگ افراد کو بلدیہ استنبول کے علاقے سراچ حانے میں جمع کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ انقرہ اور ازمیر کے علاوہ ترکیہ کے دیگر شہروں میں بھی مسلسل امام اولو کے حق میں تا دم تحریر مظاہرے جاری ہیں۔

یاد رہے 23مارچ کو صبح سویرے ہی ری پبلکن پیپلز پارٹی کی جانب سےکروائے جانے والے ابتدائی صدارتی امیدوار کے انتخابات میں پارٹی کے ارکان جن کی سرکاری تعداد ایک ملین سات لاکھ پچاس ہزار ہے میں سے ایک ملین چھ لاکھ تریپن ہزارا رکان نے امام اولو کے حق میں ووٹ استعمال کیے ہیں جبکہ امام اولو کے ساتھ یکجہتی کےاظہار کیلئے غیر ارکان کو بھی ووٹ دینے کا حق دیا گیا تھا جس کے مطابق چودہ ملین آٹھ لاکھ پچاس ہزار ووٹروں میں سے تیرہ ملین دولاکھ تیرہ ہزارووٹرز نے امام اولو کے حق میں ووٹ استعما ل کرتے ہوئے امام اولو کے جیل بھیجے والے دن صدارتی امیدوار کے طور پر قبول کرتے ہوئے ان کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی ہے۔

امام اولو کی گرفتاری کے فیصلے کے بعد ری پبلکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین اوزگور اوزیل نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ امام اولو کا واحد جرم رجب طیب ایردوان کو مسلسل تین بار یعنی ہیٹرک کی شکل میں شکست سے دوچار کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امام اولو کو اس سے قبل کئی بار متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ ایردوان کے خلاف الیکشن میں صدارتی امیدوار ہوں گے تو ان کو گرفتار کر لیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا ہے۔ انہوں نے ترکیہ کی اقتصادی صورتِ حال کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت وزیر خزانہ مہمت شمشیک کے مستعفی ہونے کے بارے میں مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ میں مہمت شمشیک کےمستعفی ہونے کے بارے میں اتنا ضرور کہوں گا گہ ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک اس وقت شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے اور عوام پر اس کے بھاری منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان منفی اثرات کو کون زائل کرے گا؟ اب عوام میں مزید اس حکومت کو برداشت کر نے کی سکت نہیں ہے۔

امام اولو کی گرفتاری کے بعد اب ری پبلکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین اوزگور اوزیل کی طرف سے حکومت کی جانب سے ان کی پارٹی کے چیئرمین کی بجائے ٹرسٹی مقرر کیے جانے کے عمل کے خدشےکو روکنے کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پر 6اپریل 2025کو پارٹی کا ہنگامی کنونشن طلب کر لیا گیا ہے تاکہ متفقہ طور پر پارٹی چیئرمین منتخب کر لیا جائے اور حکومت کو ری پبلکن پارٹی کو ٹرسٹی کے ذریعے چلانے کا موقع ہی میسر نہ آسکے۔

تازہ ترین