• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے نے ملک کی جغرافیائی سالمیت کو لاحق شدید خطرات کی اندوہناک صورتِ حال کو پوری طرح آشکار کر دیا ہے۔ یوں تو پاکستان ہمیشہ سے سیاسی بحرانو ں اور اپنی بقا کی جنگوں میں اُلجھا رہا ہے لیکن سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد آج جس طرح کے سیاسی ، معاشی اور دہشت گردی کے گرداب میں مملکت کا سفینہ ہچکولے کھا رہا ہے ویسی صورتِ حال کبھی پیش نہیں آئی۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان نہ صرف شدید معاشی بحران کا شکا رہے جو بذاتِ خودکسی بھی قوم کے وجود کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی قوم خوفناک حد تک تقسیم ہے اور ایک دوسرے کے خلاف صفِ آرا دکھائی دیتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ملک کے دو صوبوں کے پی کے اور بلوچستا ن میں بیک وقت دہشت گردی نے مملکت کو ضعف پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہ بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ ہماری مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر ہمارے دشمن بیک وقت حملہ آور ہیں۔خاص طورپر افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان جنہیں اقتدارمیں لانے میں ریاستِ پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے اور جن کی تقریباً50سا لہ میزبانی کے دوران پاکستانی عوام نے اپنے دیدہ ودل فرشِ راہ کر دئیے ۔اپنے ملک کو عالمی طاقتوں کے مفادات کا میدانِ جنگ بنا دیاجسکی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی ، کلاشنکوف، ہیروئن کلچر اور معاشی بدحالی نے ہمارے معاشرے کو یرغمال بنا لیا جس نے ہمارے اسّی ہزار سے زیادہ بیگناہ لوگوں کا خون بہایااور ہماری معیشت کو 150ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا ۔ وہی افغان طالبان آج ہمارے روایتی دشمن کے ساتھ مل کر ہمارا وجود تک مٹانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی تاریخ میں یہ سانحہ بھی پہلی مرتبہ رونما ہواہے کہ بیرونی سازشوں کے خلاف ملک کی سلامتی کے حوالے سے ہونے والی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی نہ صرف خود شریک نہیں ہوئی بلکہ اسکے سوشل میڈیا نے پاکستان مخالف طاقتوں بھارت اور افغانستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ وہ افغانستان کے خلاف کسی قسم کے آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔ حالانکہ2008ءکے بعد ہونیوالے سوات آپریشن کے دوران اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی آپریشن کا ساتھ دیا جس کی بدولت اس فتنے کو کچل دیا گیا تھا۔ صد شکر اس وقت تک پراجیکٹ عمران لانچ نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ بعد میں عمران حکومت کے غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ اقدامات نے نہ صرف پاکستان کے سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو تباہ کردیا بلکہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی ایسی فاش غلطیاں کیں جن کے باعث پاکستان گویا دنیا میں الگ تھلگ ہو گیا۔ اس میں کبھی سی پیک کو بند کر دینا او ر سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے خلاف قابلِ اعتراض گفتگو شامل ہے بلکہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد طالبان کی حمایت میں یہ بیان دینا کہ انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں۔ اسکے بعد طالبان کو کے پی کےمیں بسانے کی پالیسی نے ہمیں دوبارہ دہشت گردی کے جہنم میں دھکیل دیا۔ یاد رہے عمران خان نے یہ سب کچھ اس وقت کیا جب وہ اپنے اقتدارکے آخری دنوں میں انتہائی غیر مقبول ہو چکا تھا۔ وہ نہ صرف بارہ میں سے گیارہ ضمنی انتخابات ہار چکا تھا بلکہ کے پی میں بھی جے یو آئی کے ہاتھوں اسے بلدیاتی انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت آئندہ انتخابات جیتنے کیلئے اس نے قومی مفادات کے بر خلاف نہ صرف افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابات کرانے پر بھی ضد باند ھ لی۔ آج اندھی تقلید میں حقائق کو چاہے کتنا بھی جھٹلانے کی کوشش کی جائے پی ٹی آئی کی طرف سے قومی سلامتی کمیٹی کا بائیکاٹ ملک دوستی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ اور یہ واقعہ ہماری سیاسی تاریخ میں غیر سیاسی رویوں، ضد، ہٹ دھرمی اور ذاتی مفاد پرستی کے حوالے سے ’’سیاسی سانحے‘‘ کے طور پر لکھا جائے گا۔ آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں تاریخ ہمیں کچھ سبق سکھا رہی ہے۔ اوّل یہ کہ جو کچھ افغان طالبان ہمارے ساتھ کر رہے ہیں اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ محض مذہب کی بنیاد پر دوسرے ممالک سے پائیدار تعلقات نہیں بنائے جا سکتے۔ یاد رہے یہ وہی افغان ہیں جنہوں نے تحریکِ خلافت کے دوران ہندوستان سے ہجرت کر جانے والے مسلمانوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسرا یہ کہ فطری عمل کی بجائے مصنوعی طریقے سے نشو و نما پانے والے لیڈر کسی بھی حالت میں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور تیسرا یہ کہ ہمیں اپنے مخالف ہمسایہ ملک خصو صاً بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کر نا چاہیے۔ ہمیں اپنی بھارت پالیسی پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم بیک وقت کئی فرنٹ نہیں کھول سکتے۔ اس وقت شارٹ ٹرم پالیسی کا یہ تقاضا ہے کہ ہم امن دشمنوں کے خلاف سخت فوجی ایکشن کریں اور لانگ ٹرم پالیسی کے طور پر اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں بشمول بھارت کے ساتھ چین کی طرح ورکنگ ریلیشن شپ اور سیاسی مفاہمت کی فضا تیار کریں ۔ آ ج کا شعر

جاں بہ لب کو زندگی دے، پیار میں ہے وہ شفا

معجزاتی یہ دوا ہر مرض میں اکسیر ہے

تازہ ترین