• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عصمت چغتائی

اردو ادب کی مشہور مصنفہ عصمت چغتائی تھیں۔ 21اگست 1915 کو اترپردیش کے شہر بدایون میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا نسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ان کا بچپن جودھ پور (راجستھان) میں گزرا۔ علی گڑھ گرلز کالج سے گریجویٹ کرنے کے بعد بی ٹی (بیچلر آف ٹیچنگ) کیا۔ تحصیل علم کے بعد بدایون کی گرلز کالج میں ملازمت کی بعد ازاں بمبئی میں وہ انسپکٹریس آف اسکولز ہوگئیں۔ 

 عصمت چغتائی نے بارہ برس کی عمر سے کہانیاں لکھنی شروع کیں لیکن اپنا نام شائع نہیں کراتی تھیں۔ ان کی پہلی کہانی 1939 ء میں "فسادی" کے عنوان سے موقر ادبی رسالہ "ساقی" میں شائع ہوئی۔ کہانیوں کے دو مجموعے کلیاں اور چوٹیں 1941 اور 1942 میں شائع ہوئے۔

عصمت چغتائی نے کئی ناول ،فلموں کے لئے کہانیاں، مکالمے بھی لکھے۔ ان کی ادبی خدمات پر انہیں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سےغالب ایوارڈ اور فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ کئی اہم اعزازات اور انعامات ملے۔ 1975 میں حکومت ہند نے انھیں پدم شری کا خطاب دیا۔ 1990 میں مدھیہ پردیش حکومت نے اقبال سمّان سے نوازا۔ نصف صدی تک ادب کی دنیا میں روشنیاں بکھیرنے کے بعد24 اکتوبر 1991 کو وہ دارفانی سے کوچ کر گئیں۔پیارے بچو! آج آپ عصمت چغتائی کی عید کے حوالے سے ایک کہانی میٹھے جوتے ملاحظہ کریں۔

ننھے بھائی بالکل ننھے نہیں بلکہ سب سے زیادہ قد آور، سوائے آپا کے سب سے بڑے ہیں۔ ننھے بھائی آئے دن نت نئے طریقوں سے ہم لوگوں کو الو بنایا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے، ’’چمڑا کھاؤگی؟‘‘ہم نے کہا، ’’نہیں تھو! ہم تو چمڑا نہیں کھاتے۔‘‘’’مت کھاؤ!‘‘ یہ کہہ کر چمڑے کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ لیا اور مزے مزے سے کھانے لگے۔اب تو ہم بڑے چکرائے۔ ڈرتے ڈرتے ذرا سا چمڑا لے کر ہم نے زبان لگائی۔ ارے واہ، کیا مزے دار چمڑا تھا، کھٹا میٹھا۔ 

ہم نے پوچھا، ’’کہاں سے لائے ننھے بھائی؟‘‘ انہوں نے بتایا، ’’ہمارا جوتا پرانا ہو گیا تھا، وہی کاٹ ڈالا۔‘‘جھٹ ہم نے اپنا جوتا چکھنے کی کوشش کی۔ آخ تھو، توبہ مارے سڑاند کے ناک اڑ گئی۔’’ارے بےوقوف! یہ کیا کر رہی ہو؟ تمہارے جوتے کا چمڑا اچھا نہیں ہے اور یہ ہے بڑا گندا۔ آپا کی جو نئی گرگابی ہے نا، اسے کاٹو تو اندر سے میٹھا میٹھا چمڑا نکلےگا۔‘‘ ننھے بھائی نے ہمیں رائے دی۔ اور بس اس دن سے ہم نے گرگابی کو گلاب جامن سمجھ کر تاڑنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا۔

عید کا دن تھا۔آپا اپنی حسین اور مہ جبین گرگابی پہنے، پائنچے پھڑکاتی، سویاں بانٹ رہی تھیں۔ آپا ظہر کی نماز پڑھنے جونہی کھڑی ہوئیں، ننھے میاں نے ہمیں اشارہ کیا۔’’اب موقع ہے، آپا نیت توڑ نہیں سکیں گی۔‘‘’’مگر کاٹیں کاہے سے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔’’آپا کی صندوقچی سے سلمہ ستارہ کاٹنے کی قینچی نکال لاؤ۔‘‘ہم نے جونہی گرگابی کا بھورا ملائم چمڑا کاٹ کر اپنے منہ میں رکھا، ہمارے سر پر جھٹ چپلیں پڑیں۔

پہلے تو آپا نے ہماری اچھی طرح کندی کی، پھر پوچھا ’’یہ کیا کر رہی ہے؟‘‘ ’’کھا رہے ہیں۔‘‘ ہم نے نہایت مسکین صورت بنا کر بتایا۔یہ کہنا تھا سارا گھر ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ ہماری تکا بوٹی ہو رہی تھی کہ ابا میاں آ گئے۔ مجسٹریٹ تھے، فوراً مقدمہ مع مجرمہ اور مقتول گرگابی کے روتی پیٹتی آپا نے پیش کیا۔ ابا میاں حیران رہ گئے۔ ادھر ننھے بھائی مارے ہنسی کے قلابازیاں کھا رہے تھے۔ 

ابا میاں نہایت غمگین آواز میں بولے، ’’سچ بتاؤ، جوتا کھارہی تھی؟‘‘ ’’ہاں۔‘‘ ہم نے روتے ہوئے اقبال جرم کیا۔’’کیوں؟‘‘’’میٹھا ہوتا ہے۔‘‘ ’’جوتا میٹھا ہوتا ہے؟‘‘’’ہاں۔‘‘ ہم پھر رینکے۔’’یہ کیا بک رہی ہے بیگم؟‘‘ انہوں نے فکر مند ہو کر اماں کی طرف دیکھا۔ اماں منہ بسور کر کہنے لگیں۔ ’’یا خدا! ایک تو لڑکی ذات، دوسرے جوتے کھانے کا چسکا پڑگیا تو کون قبولےگا۔‘‘ہم نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی چمڑا سچ میں بہت میٹھا ہوتا ہے۔ ننھے بھائی نے ہمیں ایک دن کھلایا تھا، مگر کون سنتا تھا۔

’’جھوٹی ہے۔‘‘ ننھے بھائی صاف مکر گئے۔بہت دنوں تک یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ خود ہماری عقل گم تھی کہ ننھے بھائی کے جوتے کا چمڑا کیسے اتنا لذیذ تھا، پھر ایک دن خالہ بی دوسرے شہر سے آئیں۔ بقچیہ کھول کر انہوں نے پتوں میں لپٹا چمڑا نکالا اور سب کو بانٹا۔ 

سب نے مزے مزے سے کھایا۔ ہم کبھی انہیں دیکھتے، کبھی چمڑے کے ٹکڑے کو۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ جسے ہم چمڑا سمجھتے تھے، وہ آم کا گودا تھا۔ کسی ظالم نے آم کے گودے کو سکھا کر اور لال چمڑے کی شکل کی یہ ناہنجار مٹھائی بنا کر ہمیں جوتے کھلوائے۔