اِس وقت دنیا کے کونے کونے میں ریاستوں، حکومتوں کی سطح پر، میڈیا اور حلقہ ہائے مذہب و دانش میں حماس اور غزہ کے نام گونج رہے ہیں۔ یہ کیا ہیں اور کیوں ان کا اِس قدر چرچا ہو رہا ہے؟ تو اِس ضمن میں ہم پہلے غزہ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ تاریخی شہر بہت قدیم ہے اور اس کی ہمیشہ بہت اہمیت رہی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے اور بعد میں بھی عربوں کے تجارتی قافلے غزہ آتے جاتے رہتے تھے۔یہ بحیرۂ روم کی ایک ساحلی پٹّی ہے۔ 360مربع کلومیٹر پر مشتمل اِس پٹّی کا طول چالیس، اکتالیس اور عرض بارہ کلومیٹر ہے۔ اس کے شمال کا اکیاون کلومیٹر رقبہ اسرائیل سے ملتا ہے اور گیارہ کلومیٹر مصر سے۔ اس کے جنوب میں رفح کا شہر ہے، جسے فلسطین کی گورنری (Governate) کا دارالحکومت کہا جا سکتا ہے۔
غزہ دنیا کا سب سے گنجان آباد حصّہ ہے، جہاں شرحِ پیدائش دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔خشکی کے راستے دشمن اسرائیل اور رفح بارڈر کے سِوا غزہ کا دنیا سے رابطے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ مستقل طور پر اسرائیل کے محاصرے میں رہنے کی وجہ سے غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔
اس کے محلِ وقوع کی وجہ سے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں کہ اہلِ غزہ کو مصر اور اردن کی طرف دھکیل کر یہاں بڑے تجارتی مراکز، جدید ہوٹل، ہوائی اڈّے، سیرگاہیں اور عشرت کدے آباد کرے۔اہلِ غزہ کی پہچان اسلام، فلسطینیت اور آزادی ہے۔ جہاد ان کا شعار اور شہادت اُن کی تمنّا ہے۔
شیخ احمد یاسینؒ
حماس بلاشبہ اِس صدی کے تیسرے عشرے کا عجوبہ اور مظہر (phenomeno) ثابت ہو رہی ہے۔پچھلی صدی میں جو عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں،اسرائیل کے مقابلے میں مصر، شام، اردن وغیرہ وہ مُلک تھے، جن کے پاس برّی، بحری اور فضائی فوجیں اور اسلحہ، گولا بارود تھا، لیکن اُن میں سے کوئی مُلک دشمن کے مقابلے میں ہفتہ، دس دن سے زیادہ نہ ٹھہر سکا۔
ان کے بہت سے علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور ان کی عسکری کمر توڑ کر رکھ دی۔ دوسری طرف، حماس کی ننّھی سی عسکری قوّت ہے، جس کے مقابلے میں اسرائیل کی بہت بڑی فوج اور جدید ترین دفاعی ہتھیار بروئے کار آ رہے ہیں، امریکا ڈالرز کی بارش ہی نہیں کر رہا، اسلحے کے ڈھیر بھی فراہم کر رہا ہے، تقریباً ڈیڑھ سال ہو رہا ہے کہ حماس کو شکست ہوئی اور نہ ہی زمین کی تہیں چھان لینے والے حسّاس ترین آلات کے باوجود اسرائیلی قیدیوں کا سراغ لگایا جا سکا کہ وہ کہاں رکھے گئے۔ حماس کے عسکری وِنگ نے سرُنگی (tunnel) ٹیکنالوجی کا ایسا نظام قائم کیا ہے کہ زیرِ زمین اس کی پوری فوجی چھائونی ہے۔
قیدیوں کا تبادلہ ہوتا ہے، تو اسرائیل کے آٹھ، دس یا کم و بیش قیدی رہا کیے جاتے ہیں اور ان کے بدلے کئی سو فلسطینی قیدی چُھڑوا لیے جاتے ہیں۔حماس کی اس حیرت انگیز کارکردگی کے پیچھے ایک شخص شیخ احمد یاسین ؒ کا ویژن، اُس کی فکر اور تربیت کارفرما ہے۔ حماس کو جانچنے اور سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم شیخ احمد یاسین شہید کے بارے میں جان لیں۔
داعی، مُصلح، مبلّغ ،مربّی، مجاہد، استاد، حُریّت پسند، مزاحمت کی علامت شیخ احمد یاسین کی اپنی زندگی بھی ایک حیرت کدہ تھی۔ اُن کے بارے میں عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی اور دیگر کئی زبانوں میں جو کچھ لکھا گیا، وہ بھی ششدر کر دینے ہے کیوں کہ بظاہر وہ ہڈیوں کی مُٹھ، گوشت کی ایک ڈھیری، معذور و مجبور اور مشلول ڈھانچہ تھے۔ لیکن اُن سے متعلق ابتدا میں جو توصیفی کلمات لکھے ہیں، اُن میں ذرّہ بَھر مبالغہ نہیں بلکہ وہ اِس سے کچھ زیادہ ہی تھے۔ حماس تنظیم کے بانی وہی شیخ احمد یاسینؒ تھے۔
وکی پیڈیا، الجزیرہ نیٹ،اخوان پیڈیا،عرب اخبارات، JEWISH JOURNAL اور Interactive Encyclopedia of Palestinian Question اور Jewish Virtual Library،Middle East Monitorوپر ڈھیروں مواد کے علاوہ باضابطہ تصانیف میں،جگہ جگہ اُن کے تذکرے ملتے ہیں۔حماس کی تشکیل کے دو سال بعد عالَمِ اسلام کی 8عالِم، داعی، مُصلح اور مجاہد شخصیات کے خاکوں پر مشتمل میری ایک چھوٹی سی کتاب’’پاسدارانِ دعوت و عزیمت‘‘ شائع ہوئی تھی۔
اُس وقت تک شیخ احمد یاسین ؒ کا تعارف بہت محدود تھا، تاہم پھر بھی دست یاب معلومات کی بنیاد پر اُن کا ایک جامع خاکہ لکھا تھا۔اُس وقت اُن کا سنِ ولادت 1939ء لکھا تھا، لیکن اس کے بعد متعدّد ذرائع 1936ء بتاتے ہیں۔ اُن کے پاسپورٹ پر اُن کا سالِ ولادت 1929ء لکھا ہوا ہے، لیکن باقی ساری معلومات تقریباً وہی ہیں، جو میرے اُس مقالے میں شامل تھیں۔
شیخ احمد یاسین غزہ شہر سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب میں بحرِ ابیض (روم) کے مشہور ساحلی قصبے، عسقلان میں پیدا ہوئے تھے۔ والد کا نام عبداللہ احمد تھا، جو اُن کی پیدائش کے تین سال بعد ہی فوت ہو گئے تھے۔والدہ کا نام سعدہ عبداللہ الہبیل تھا۔ اُن کی نسبت سے اُنھیں احمد سعدہ بھی پکارا جاتا تھا، جس سے اُن کے والد کی تین بیویوں سے پیدا ہونے والے اُن کے بہن بھائیوں میں اُن کی پہچان ہو جاتی تھی۔اُن کی پرورش اور تربیت والدہ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔
برطانیہ کی مدد اور سرپرستی سے صیہونی ریاست اسرائیل کے سراسر غیرقانونی طور پر قیام کے بعد فلسطینیوں کی غریب الوطنی، مظلومیت اور محرومی و بے بسی کا اندوہ ناک دَور شروع ہوا،(جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا) تو بہت سے دوسرے خاندانوں کے ساتھ ان کا کنبہ بھی عسقلان سے نکال دیا گیا۔ کچھ عرصہ مہاجر کیمپ میں گزارنے کے بعد یہ خاندان غزہ میں آبسا۔
شیخ احمد یاسین نے ابتدائی تعلیم عسقلان کے قریب مہاجرین کے لیے قائم ایک سکول’’الجوزہ‘‘ اور پھر مدرسہ اِمام شافعی ؒ اور مدرسہ رمال میں حاصل کی، لیکن پانچویں جماعت کے بعد معاشی حالات نے تعلیم تَرک کر دینے پر مجبور کر دیا۔ مہاجر بچّے ساحل پر مچھلی کا شکار کرتے یا مصری فوج کے کیمپ میں جا کر فوجیوں سے بچا کھچا کھانا مانگ کر لے آتے تھے۔کچھ اہلِ خیر نے تعاون کیا، تو غزہ کے قریب ایک بستی’’جورۃُ الشّمس‘‘ میں اُن کا چھوٹا سا مکان بن گیا۔
تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوا، تو کچھ عرصہ غزہ کی بندرگاہ پر مزدوری کی۔1958ء میں ثانوی تعلیم کی سند فلسطین اسکول سے حاصل کی۔1959 ء میں مصر گئے، لیکن وہاں اخوان المسلمین کے خلاف سخت اقدامات ہو رہے تھے، تو اُنھیں وہاں سے نکال دیا گیا یا خود واپس آ گئے اور عین الشّمس یونی ورسٹی سے پرائیویٹ طالبِ علم کی حیثیت سے ثانوی امتحان کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
تقریباً سولہ سال کی عُمر میں(بعض ذرائع نے بارہ سال لکھا ہے) اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ساحل پر ورزش اور جسمانی مشقیں کرتے ہوئے پیٹھ کے بل گِرے اور گردن کے نیچے سے ریڑھ کی ہڈی کے مُہرے پچک کر ایک دوسرے میں پیوسط ہو گئے۔ سارا وجود ناکارہ ہو گیا۔ازخود نقل و حرکت کے قابل نہ رہے۔
علاج کی کوئی سہولت نہیں تھی، اِس لیے بقیہ ساری عُمر ایک معذور و مشلول انسان کی حیثیت سے اِس طرح گزاری کہ حوائجِ ضروریہ پوری کرنے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہو گئے۔ کچھ رسالے اورکتابیں پڑھ کر حسن البنا شہید کی برپا کردہ تحریک، اِخوانُ المسلمین کی دعوت سے متاثر ہوئے اور پھر اُسی کو حِرزِ جان اور زندگی کا نصب العین بنا لیا۔
بحیثیت مدرّس ملازمت
نوجوان احمد یاسین جسمانی طور پر معذور ہوئے، لیکن اُن کے جذبۂ عمل میں کوئی کم زوری نہیں آئی تھی۔ازخود ہلنے جُلنے کے قابل نہ ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ کرنا چاہتے تھے۔ شیخ احمد یاسین نے میٹرک کا امتحان پاس کر رکھا تھا، جس کی بنیاد پر بحیثیت مدرّس نوکری کے لیے درخواست دے دی۔ انٹرویو کے لیے اُن کے دوست اُنہیں اُٹھا کر لے گئے اور انٹرویو کمیٹی کے سامنے اِس طرح رکھا، جیسے بے جان لاش رکھی جاتی ہے۔
کمیٹی کے لیے اِس سے زیادہ اچنبھے کی کیا بات ہو سکتی تھی کہ آزادانہ نقل و حرکت کی قوّت سے محروم، گوشت کا یہ ڈھیر عملی زندگی میں شرکت کا ہی نہیں بلکہ صحت مند لوگوں کے ساتھ مقابلے کا عزم و حوصلہ رکھتا ہے۔انٹرویو میں جو سوال ہوئے، اُن کے جواب سُن کر کمیٹی کے ارکان ان کی علم و ثقافت اور دینی و ادبی معلومات پر حیران رہ گئے۔
چناں چہ کمیٹی نے اُن کے تقرّر کی منظوری دے دی اور احمد یاسینؒ استاد منتخب ہوگئے۔ یہ ملازمت اُن کے بلند ارادوں اور عظیم مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنی۔ وہ جبری طور پر غلام بنا لی جانے والی فلسطینی قوم کی نئی نسل میں تعلق باللہ، تمسّک بالقرآن، یقین و ایمان کی قوّت، اخلاقی عظمت، دِین کے حقیقی شعور اور حُریّت و آزادی کی قدر و قیمت کے ساتھ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کی ایک نئی رُوح پُھونکنے اور اسے ایک نئی سمت دِکھانے کے عمل پر کاربند ہو گئے۔ان کی کلاس نصابی سطریں رٹنے اور امتحانی کورس پورا کرنے کے لیے نہیں، بلکہ انسان سازی، تعمیرِ سیرت و اخلاق اور تشکیلِ کردار کی ایک’’یونی ورسٹی‘‘ بن گئی تھی۔
دعوتی سرگرمیاں
شیخ احمد یاسینؒ کے پاس فلسطینی عوام اور نوجوان نسل کے لیے ایک خاص پیغام اور منصوبہ تھا۔ مسجد عبادت کی جگہ ہے، لیکن اس کا ایک سماجی، تہذیبی اور ثقافتی پہلو بھی ہے۔ یہ تربیت گاہ بھی ہے اور معاشی مسائل کے حل اور عدل و انصاف کی فراہمی کا مرکز بھی۔ شیخ احمد یاسینؒ نے نئی نسل کی دینی، اخلاقی تربیت اور اس کے اندر شعور کی روشنی پھیلانے، آزادی کے لیے جہاد کا جذبہ اور شہادت کا شوق پیدا کرنے کے لیے مساجد میں خطبات و تقاریر کا سلسلہ شروع کیا۔
ان کے الفاط میں وزن، زبان میں تاثیر اور پیغام میں قوّت تھی، اِس لیے نوجوان جوق در جوق اُن کے خطبات سُننے کے لیے اُن کے گرد جمع ہونے لگے۔’’ہر چہ اَز دل خیزَد بَر دِل ریزَد‘‘ کے مصداق اُن کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ زندگیاں بدلنے لگے۔ یوں ایک تنظیم اور تحریک کی بنیاد پڑی اور حماس وجود میں آ گئی۔
کولمبیا یونی ورسٹی کے پروفیسر اور مؤرّخ، راشد خالدی نے اپنی ایک کتاب میں حماس کو ایک قدامت پسند تنظیم قرار دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیخ احمد یاسین نے نوجوانوں کو’’جامعۃُ الازہر‘‘ کی طرز کے چُغے، جُبّے اور قبائیں پہنے ہوئے مولوی نہیں بنایا۔
حماس میں جدید وضع قطع کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، علماء، اسکالرز، ڈاکٹرز ،انجینئرز اور دیگر پیشہ وَروں کی کثیر تعداد ہے۔ حماس کی نظریاتی جڑیں اِتنی مضبوط ہیں کہ شرق و غرب سے اُس کے خلاف چلنے والی آندھیاں اُسے ہلا نہیں سکیں۔
رفاقتِ حیات کی انوکھی نعمت
کچھ سماجی رویّے، روایات اور مادّی معیارات ہر قوم اور دَور میں رہے ہیں۔ ایک معذور نوجوان کو کوئی خاندان اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دیتا،لیکن 1960ء میں ایک نیک دل خاتون حلیمہ یاسین نے خوشی خوشی شیخ احمد کی رفیقۂ حیات بننا اور اپنے آپ کو اُن کی خدمت کے لیے وقف کرنا قبول کر لیا۔ اُن سے اُن کے تین بیٹے اور آٹھ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
اس خاتون کی وفا اور جذبۂ خدمت ایسا تھا کہ جب اسرائیل نے شیخ احمد یاسین کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا، تو محترمہ حلیمہ نے اپنے معذور شوہر کی خدمت کی خاطر رضاکارانہ طور پر خود بھی قید کی زندگی اختیار کر لی۔
قید و بند کا امتحان
شیخ احمد یاسین کو پہلی بار اپریل 1984ء میں اسلحہ رکھنے، عسکری تنظیم قائم کرنے اور صیہونی ریاست کا وجود مِٹانے کا منصوبہ بنانے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا اور تیرہ سال قید کی سزا سُنائی گئی۔ ایک فلسطینی گروہ، پاپولر فرنٹ نے کچھ اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا ہوا تھا، تو اُن کے بدلے گرفتاری کے گیارہ ماہ بعد شیخ احمد یاسینؒ رہا کر دیئے گئے۔ دسمبر 1987ء میں پہلے انتفادہ کے عرصے میں اُنہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔
دسمبر 1988ء میں اُنہوں نے اپنے تربیت یافتہ نوجوانوں کو میدانِ عمل میں اُتارنے کے لیے’’ حماس‘‘ کی بنیاد رکھی۔19مئی 1989ء ایک بار پھر اُنھیں متعدّد نوجوانوں سمیت گرفتار کر کے پسِ دیوارِ زنداں ڈال دیا گیا۔ آخر بزدل دشمن عاجز آ گیا اور 22مارچ 2004 ء کو ہیلی کاپٹر سے میزائل برسا کر اس بطلِ حُریت کو شہید کر دیا۔
اِس وقت تک حماس کے سربراہوں میں سے تین کو راکٹ یا بم برسا کر شہید کیا گیا ہے۔ یحییٰ سنوار لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور خالد مشعل کو زہر دیا گیا تھا، لیکن اُس وقت اردن کے شاہ حسین کی مداخلت سے اسرائیلی خفیہ ایجینسی نے تریاق فراہم کر دیا، یوں اُن کی جان بچ گئی تھی۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)