مُلکھ تضادستان کے رنگ نرالے ہیں وہ سیاسی جماعت جو دو بڑے سیاسی خاندانوں کی وراثت ختم کرنے کیلئے میدان میں آئی تھی نیرنگئی سیاست دیکھیے کہ خان صاحب کا جانشین کوئی ورکر نہیں بلکہ انکی اہلیہ ہوں گی یا انکی باجی، مجھے یہ لگتا ہے کہ اب بھی اگرچہ ان دو بیبیوں کو ہنوز پارٹی سیاست میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا مگر وہ اس قدر طاقتور ہیں کہ وہ پارٹی کے جس بڑے سے بڑے لیڈر کو چاہیں اس پر تنقید کرتی ہیں جسے چاہیں عزت دیتی ہیں اور جسے چاہے ذلیل کر دیتی ہیں ۔
حالات و قرائن بتا رہے ہیں کہ جانشین کی دوڑ میں علیمہ باجی، بشریٰ بھابی سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ علیمہ باجی کا اوورسیز تنظیموں اور نامور موٹے موٹے افراد سے بہت گہرا تعلق بن چکا ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک وقت تھا باجیوں کو بشریٰ کے سامنے چپ کرا دیا جاتا تھا، علیمہ باجی خان کے قریب تو بہت ہیں تاہم وہ انہیں ڈانٹ کر بھی اپنی بات منوا لیا کرتا تھا۔ بشریٰ بی بی کے سیاسی فیصلے مانے جاتے تھے تو ان کی روحانیت اور فراست کے سامنے سب زیر تھے پھر نومبرمیں اسلام آباد لانگ مارچ ہوا مارچ کا انجام المناک تھا، مارچ کی ناکامی کا ولن اگرچہ گنڈا پور ٹھہرا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس لانگ مارچ کی ناکامی بھابی کو لیکر بیٹھ گئی ہے، انکی روحانی پیشن گوئیوں انکی سیاسی فراست اور لانگ مارچ کے دوران دکھائی جانے و الی بہادری سب اکارت گئی ۔ اب علیمہ خان ہی وکیلوں کے پیسوں کا انتظام کرتی ہیں خان کے اہم ترین پیغامات بیرون ملک بیٹھے اپنے اہم ساتھیوں کو علیمہ خان کے ذریعے ہی پہنچتے ہیں۔ اڈیالہ جیل کی قید کے دوران بھابی بشریٰ وٹو کئی بار جلال میں آتی رہیں ایک بار جج پر اتنا غصہ ہوئیں کہ خان کے منع کرنے کے باوجود جج کو کھری کھری سنا ڈالیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ خان لوگوں کے سامنے بھی نہ صرف بھابی کے غصے کو برداشت کر لیتے ہیں بلکہ ان کے سخت الفاظ پر مخالفانہ ردعمل بھی نہیں دیتے لیکن اپنی بہنوں پر انہیں مکمل اعتماد اور مکمل کنٹرول ہے۔ وہ عوامی مقامات پربھی اپنی علیمہ باجی کو ڈانٹ کر اپنی بات منوا لیتے ہیں۔ بانی تحریک انصاف کو مسلسل ملنے والوں کا خیال ہے کہ پہلے دنوں میں بشریٰ بھابی چھائی ہوئی تھیں مگر اب علیمہ باجی چھائی ہوئی ہیںنومبر کے لانگ مارچ نے بشریٰ بھابی کے سیاسی کیریئر کا خاتمہ کر دیا ہے۔
اڈیالہ جیل میں بانی اور انکی اہلیہ کے خلاف چلنے والے مقدمہ کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے والے ایک سیاسی قیدی نے بتایا کہ بانی کا بشریٰ بی بی سے رویہ حد درجہ احترام اور احتیاط کا ہوتا تھا، تاہم حیران کن امر یہ ہےکہ بشریٰ بھابی کا رویہ حکومت کے خلاف خان کی نسبت زیادہ جارحانہ ہوتا تھا اور بسا اوقات بانی اپنی روحانی اہلیہ کو عزت و احترام سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے لانگ مارچ سے پہلے جب بشریٰ بھابی جیل میںتھیں تو بانی اور بشریٰ بیگم کی متفقہ رائے تھی کہ لوگ باہر تحریک کیلئے تیار بیٹھے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی باہر بیٹھی قیادت تساہل یا خوف کی وجہ سے اپنا کردار صحیح طرح ادا نہیں کر رہی۔ بشریٰ بی بی کو جیل سے رہا تو خان کو ریلیف دینے کے لئے کیا گیا تھا لیکن بشریٰ بھابی نے پشاور ڈیرے لگا لئے تب بانی اور بشریٰ بیگم دونوں کی رائے تھی کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا تو کوئی بھی عمران کی رہائی نہیں روک سکے گا لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور ریاست بے بسی سے عمران کو رہا کرنے پر مجبور ہو گی ایسی صورت میں بشریٰ بی بی، بھٹو کی نصرت بھٹو بن کر سیاست میں طلوع ہوتیں مگر افسوس کہ اسلام آباد میں رات کے اندھیرے میں عین لاٹھی چارج کے وقت اپنے تکیے تلاش کرکے وہاں سے فرار نے ان کے سیاسی عزائم کا جلد ہی گلا گھونٹ دیا۔ بعدازاں گنڈا پور اور راجہ سلمان اکرم دونوں ہی بشریٰ بھابی کے رویے کے شاکی رہے۔ راجہ سلمان اکرم نے تو ان کی جھڑکی پر استعفیٰ بھی دے دیا تھا جو بانی نے خود واپس کروایا ۔علی امین گنڈا پور بھی بشریٰ بی بی کے سخت رویے کے مسلسل شاکی رہے یہ وہ چند وجوہات تھیں جن سے بشریٰ بھابی سیاست کے پس منظر میں چلی گئیں اور عمران خان کی مردانہ شکل باجی علیمہ خان سیاست کے پیش منظر پر آ گئی ہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بانی عمران خان کی پسند ناپسند اکثر تبدیل ہوتی رہتی ہے آج کل ہر معاملہ علیمہ باجی نے سنبھالا ہوا ہے کل کو یک لخت ان سے سب کچھ واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ ایک مبصر نے کہا کہ خان کے مزاج اور اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی مسلسل جیل اور لبوں پر خاموشی بھی بانی کیلئے ان کا اعتماد بحال نہیں کرسکی ۔تحریک انصاف میں سب سے تجربہ کار پارلیمنٹرین ہونے کے باوجود سیاسی امور پر ان سے سرے سے کوئی مشورہ ہی نہیں کیا جاتا انہیں لیڈر شپ میں سے کوئی بھی بڑا نام ملنے نہیں جاتا ۔ایک طرف علیمہ باجی کی گڈی چڑھی ہوئی ہے تو دوسری طرف سلمان اکرم راجہ بھی بہت مضبوط ہوتے نظر آ رہے ہیں، لطیف کھوسہ کو آل پارٹیز کانفرنس کروانے کا اختیار سونپا گیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ آج کے تین بڑے کل کے بھی بڑے ہونگے یا بانی کی نگاہِ کرم کسی اور کو بڑا بنا دےگی ۔
تحریک انصاف خیبر پختونخواکو کئی سال کے بعد ایک نیا چیلنج درپیش ہے، ایک طرف تو وزیر اعلیٰ گنڈا پور کے خلاف شکایتوں کے انبار لگائے جا رہے ہیں ایک لابی عاطف خان کو متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہے، حکومت نے پرویز خٹک کو مشیر وزیر داخلہ بنا کر ایک نئی تلوار لٹکا دی ہے، گنڈا پور کی بھی سرکار سے راہ ورسم ہے تو پرویز خٹک کا بھی سرکار دربار میں رسوخ ہے دیکھنا یہ ہو گا کہ گنڈا پور سہ طرفہ لڑائی لڑ سکیں گے؟ اب انہیں وزیر داخلہ محسن نقوی کی وہ تائید بھی مکمل طور پر حاصل نہیں رہی جس کی بنیاد پر وہ ہر مشکل وقت میں مسیحائی پا کر نکل جاتے تھے۔ سیاسی جانشین پارٹی کا ہو یا خیبر پختونخوا کا، اگلی سیاست میں سب سے اہم یہی بات ہوگی۔