• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نے کہا:بعض اوقات انسان کا تخیل،اس کے دماغ میں ایک ایسا منظر پیدا کرتاہے، جس کا اسے خود بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ ہرگز حقیقت نہیں اور نہ کبھی حقیقت بن سکے گا۔ اس کے باوجود اس تصور سے اسے لذت ملتی ہے۔ وہ خود کو اس میں گم کر لیتاہے۔ اس وقت وہ ایک بچے کی طرح ہوتاہے جو جاگتی آنکھوں سے کھلونا ملنے کا خواب دیکھ رہا ہوتاہے۔ جب انسان بڑا ہو جاتا ہے تو کھلونے کی جگہ اپنی اس تخیلاتی عیاشی کے دوران وہ دیکھتا ہے کہ میں کوئی کارنامہ سر انجام دے رہا ہوں اور مخلوق تالیاں بجا رہی ہے۔ انسان کی حالت افتخار محمد چوہدری اور ثاقب نثار جیسی ہو جاتی ہے۔کئی انسان جو بظاہر بڑے جرات مند ہوتے ہیں، درحقیقت مخلوق کی داد کے بھکاری ہوتے ہیں۔

میں خاموشی سے سنتا رہا۔ اس نے کہا: پچاس ہزار مسلمان غزہ میں شہید ہو چکے۔ رسالت مآبﷺ نے فرمایا تھا:قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں، جیسے کھانے والے پیالوں پر۔ تم اس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہوگے مگر سیلاب کی جھاگ کی مانند۔ اللہ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ”وھن“ ڈال دے گا، دنیا کی محبت اور موت کا ڈر۔سنن ابی داؤد 4297۔

آج جو بے عزتی کی زندگی مسلمان بسر کر رہے ہیں، موت اس سے کہیں بہتر ہے۔غزہ پر امت اس طرح خاموش ہے، جیسے کربلا پر خاموش رہی تھی حالانکہ موت پھر بھی آکر رہنی ہے۔ باری باری ہمیں پنجرے سے نکال کر چھری پھیردی جائے گی۔

ایک ٹی وی چینل آن کیا تو حیران رہ گیا۔ اس کے مطابق اسرائیل کا ائیرپورٹ تباہ ہو چکا تھا۔ یمن میں امریکی جنگی طیارے گر رہے ہیں۔ پاکستان نے اسرائیل کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ چین اور روس نے پاکستان کی حمایت کا فیصلہ کر لیا۔ یہ سب کرامتیں صرف اسی چینل پہ نشر ہو رہی تھیں۔ خواہش کو انہوں نے خبر بنا دیا تھا۔وہی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ کر خود لذتی کی کوشش۔ جب مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل رہا تھا تو روز ”غدار“ بنگالیوں کے نئے مورچے فتح ہونے کی خوشخبریاں نشر ہوا کرتیں۔

اس نے مجھ سے یہ کہا:اچانک پتہ نہیں کیوں، مجھے اپنا زمانہ طالب علمی یاد آیا۔ میری عمر اس وقت بیس برس تھی۔ ہماری کلاس کی ایک لڑکی بے حد خوبصورت تھی۔ میں اکثر اسے دیکھتا رہتا۔ اس نے کبھی میری طرف دیکھا بھی توناگواری سے۔ دوسال گزر گئے، ڈگری مکمل ہو گئی۔ وہ ماضی کا حصہ ہو گئی۔

اس نے کہا:سال پہ سال گزرتے گئے۔ میں بال بچے دار ہو گیا۔میری بیوی اس سے زیادہ خوبصورت تھی۔میں بھلا اب اس کے بارے میں کیوں سوچتا۔ وہ بھی یقیناً ا ب بچوں والی ہوگی۔ زمانہ طالب علمی کورخصت ہوئے بائیس برس ہو چکے تھے۔ میرے سر میں چاندی اتر آئی تھی۔

یہی وہ دن تھے، جب میں نے سوچا، خدا کی طرف پلٹنا چاہئے۔ یہ زندگی تو عارضی ہے۔میں نے نماز پڑھنا شروع کر دی، قرآن کھولا۔ داڑھی رکھ لی ۔ ایک دن میں نہایت خوش الحانی سے تلاوت کر رہا تھا۔ اسی وقت دماغ میں ایک شبیہ لہرائی۔ تصور کی آنکھ سے میں نے دیکھا کہ یونیورسٹی میں بیٹھا ہوں، میری وہ کلاس فیلو میرے پاس بیٹھی میری تلاوت سن رہی اور متاثر ہو رہی ہے۔ مجھے بے حد لطف آیا۔

اسی وقت میری عقل ہڑبڑا کر بیدار ہوئی۔ ”یہ کیا؟“ اپنے آپ سے میں نے سوال کیا۔ چشمِ تصور میں اپنی عبادت سے میں اسے کیوں متاثر کرنا چاہ رہا ہوں،بائیس برس سے جسے دیکھا بھی نہیں۔زندہ بھی ہے یا مرچکی۔ ”شیطان یہ میرے ساتھ کیا کر رہاہے۔“ بے اختیار میں نے سوچا۔ وہ میری آنکھ میں جب چاہے کوئی شبیہ لہرا کے میرا تماشہ دیکھ سکتاہے؟ کیاشیطان نے میری عبادت ہی کو میری گمراہی کا ذریعہ بنادیا؟

بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں

لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے

چیختا ہوا یہ سوال میرے سامنے آکھڑا ہوا کہ میری اس عبادت کا صلہ کون دے گا، جو ایک عورت کے خیال میں ادا کی جا رہی ہے؟

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا

مجھے حیرت زدہ فرشتے یاد آئے جو پوچھ رہے تھے:انسان کیسے نائب ہو سکتاہے، وہ تو خون بہاتا ہے۔ آج غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟بے شک اللہ جو جانتاہے، ہم نہیں جانتے۔یہ توانسان کی عبادت کا حال ہے۔ گناہ کا حال یہ ہے کہ لوگ گروہ میں اکھٹے ہو کر سرِ عام بدکاری کرتے ہیں۔ انسان کو کرّہ ارض سونپنے پررنج مگر تکبر کے عالم میں شیطان نے کہا تھا کہ میں اسے جیسے چاہوں گا، بہکاؤں گا۔

خضر بھی بے دست و پاالیاس بھی بے دست و پا

میرے طوفان یم بہ یم،دریا بہ دریا،جو بہ جو

سیپین کا شیطان یہ حال کر رہاہے، نینڈرتھل، ہو مو اریکٹس کا کیا حال کیا ہوگا۔ ان کے پاس البتہ ایٹم بم اور میزائل نہیں تھے۔ شیطان انسان کے کان میں پھونک سکتا ہے۔ ایک شبیہ، ایک جذباتی خیال لہرا کر اسے باقی پورا دن اس کے پیچھے لگا سکتاہے۔ شیطان شاید دو ٹانگوں والوں کو کسی شبیہ کے پیچھے لگا کر اسی طرح خوش ہوتا ہو گا، جس طرح انسان مصنوعی ذہانت والے روبوٹس سے کھیلتا ہے۔

خدا کی مدد کے بغیر یہ حیثیت ہے انسان کی!

تازہ ترین