• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جن جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتیں کمزور ہو جائیں وہاں جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکتی۔ اسی طرح جن ممالک میں جمہوریت جڑیں مضبوط بنا لیتی ہے وہاں کوئی بھی چیز جمہوریت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ بد قسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کو استحکام حاصل ہوا اور نہ ہی کسی نے جمہوری نظام کو چلنے دیا۔آئے روز حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور نظام حکومت چلانے کیلئے نئے نئے تجربات نے پاکستان کے ’’فائبر‘‘ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مختصر عرصہ کے سوا ہمارا بیشتر وقت فوجی و نیم فوجی حکومتوں کے سائے میں ہی گزرا ہے اگر یہ کہا جائے کہ حکومت سازی میں سارا عمل دخل اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا ہے تو یہ بھی یک طرفہ رائے ہے جب سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے مل کر پورے نظام کی بساط لپیٹ دیں اور اقتدار کے حصول کیلئے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں تو پھر جب ان کو اسی ’’طریقہ واردات‘‘ کے استعمال سے اقتدار سے محروم کر دیا جائے تو شور شرابہ کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو اقتدار سے نکال کر عمران خان کو بر سر اقتدار لانے کی سازش کی جس سے نہ صرف جمہوری نظام عدم استحکام کا شکار ہوا بلکہ پاکستان کی ترقی کا پہیہ رک گیا بالآخر تین سال کی تگ و دو کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم کروا کے ’’عمران خان پراجیکٹ‘‘ کے ہائبرڈ نظام کے تحت حکومت چلانے کا ناکام تجربہ کیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا۔ عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کی پالیسی ہے تصادم کی پالیسی نے عمران خان کو زیرو سے ہیرو تو بنا دیا لیکن اس پالیسی نے اس کے لئے اقتدار کے راستے مسدود کر دئیے ہیں۔ عمران خان کی غیر دانشمندانہ سیاسی حکمت عملی نے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس قدر فاصلے بڑھا دئیے ہیں کہ ان کے ’’سروائیول‘‘ کے امکانات کم ہو گئے ہیں کوئی انہونی ہی عمران خان کو ایک بار پھر اقتدار کے منصب پر فائز کر سکتی ہے۔ عمران خان کے حق میں ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے کہ ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ پالیسی نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے لہٰذا وہ اپنی رہائی کی ڈیل میں مزاحمت کر رہے ہیں۔ وہ اپنی رہائی کیلئے دو تین بار اسٹریٹ پاور استعمال کرنے کا تجربہ بھی کر چکے ہیں لیکن ان کی تنہا جماعت اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے وہ رہائی کیلئے ایک طرف دباؤ کا حربہ استعمال کرتے ہیں تو دوسری طرف منت سماجت اور ترلے کرنے پر آجاتے ہیں۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ علی امین گنڈا پور اور اعظم سواتی سمیت پی ٹی آئی کے کئی رہنما اپنی بساط کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے دل میں عمران خان کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی عمران خان کی قیادت میں متحد نظر آتی ہے لیکن عملی طور پر کے پی کے میں پی ٹی آئی ہزارہ، پشاور اور ڈیرہ اسماعیل گروپوں میں منقسم ہے کچھ ایسی ہی صورت حال پنجاب میں ہے پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنانے کے لئے گراؤنڈ تیار ہو گیا ہے کسی وقت بھی فارورڈ بلاک بنایا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے عوام میں عدم مقبولیت کا خوف پی ٹی آئی کے منحرفین کے لئے فارورڈ بلاک بنانے کی راہ میں حائل ہو لیکن پی ٹی آئی میں شکست و ریخت کا عمل پارٹی کی دباؤ کی قوت کو کم کرنےکا باعث بنا ہے۔ پی ٹی آئی کی وکلاء قیادت نے عوام کو عید الفطر کے بعد اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنانے کی نوید سنائی تھی لیکن تاحال پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کے مطالبات کا جواب نہیں دے سکی اس لئے فی الحال ملک گیر تحریک چلانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، ممکن ہے عمران خان کی رہائی کیلئے پس پردہ کوششیں کرنے والے عناصر عمران خان کو ’’9مئی2023ء کے واقعات پر عام معافی مانگنے پر رضا مند کر لیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کر دیں تو ان پر قید تنہائی کی صعوبتوں میں کمی آسکتی ہے۔ ایک طرف عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پس پردہ رابطوں کا ’’چرچا‘‘ ہے تو دوسری طرف عدلیہ کے حکم کے باوجود جیل انتظامیہ نے عمران خان کے قریبی عزیز و اقارب اور وکلاء کی ملاقاتیں کرانے کا ’’کھیل تماشا‘‘ لگا رکھا ہےجیل انتظامیہ سارا سارا دن عمران خان کی بہنوں کو ملاقات کے انتظار میں بٹھائے رکھنے سے جیل کے باہر دھرنا دینے کی نوبت آگئی ہے عمران کی بہنوں کی گرفتاری اور رہائی کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے عمران خان سے ملاقات کیلئے بار بار وکلاء، علیمہ خان اور ان کی بہنوں کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چٹھی ڈالنا پڑتی ہے۔ عمران کی فیملی کے ساتھ یہ ناپسندیدہ کھیل جاری ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عمران کے اعصاب کا امتحان لیا جا رہا ہے اور انہیں شکست و ریخت کا شکار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بظاہر عمران خان اندر سے ٹوٹا نظر نہیں آرہا لیکن اسٹیبلشمنٹ تک رسائی کا دعویٰ کرنیوالوں کہنا ہے کہ عمران خان کی ’’ڈیل‘‘ کے نتیجے میں رہائی کے امکانات روشن ہیں اگر کسی وقت عمران خان کو کچھ ریلیف مل جائے تو یہ اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔

تازہ ترین