ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ کا وہ درخشاں ستارہ تھا جس کی روشنی نے ایک پسماندہ اور تقسیم شدہ قوم کو متحد کرنے کا عظیم فریضہ سرانجام دیا۔ بھٹو صاحب کا سیاسی قد کاٹھ، انکا نظریہ اور انکی عوامی مقبولیت اس حد تک تھی کہ ان کے مخالفین انہیں کسی بھی قیمت پر راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ یوں، 4اپریل 1979ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن کے طور پر جانا جاتا ہے، جب ایک متنازع عدالتی فیصلے کے نتیجے میں انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ یہ فیصلہ محض ایک عدالتی قتل نہیں تھا بلکہ یہ جمہوریت، عوامی رائے اور پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ تھا۔ بھٹو صاحب کو جس انداز میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا، وہ ہر لحاظ سے شفافیت اور انصاف کے اصولوں کے برعکس تھا۔ اس فیصلے کو آج بھی دنیا بھر کے قانونی ماہرین ایک ’’جوڈیشل مرڈر‘‘ یعنی عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا وہ المیہ ہے جس نے نہ صرف انصاف کے ایوانوں پر سوالات اٹھائے بلکہ اس وقت کی عدلیہ کے کردار کو بھی متنازع بنا دیا۔ خود بھٹو صاحب نے بھی اپنے آخری لمحات میں کہا تھا کہ ’’مجھے قتل کیا جا رہا ہے، انصاف نہیں دیا جا رہا‘‘ اور ان کے یہ الفاظ آج بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں گونجتے ہیں۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی ان کی سیاست، ان کے نظریات اور ان کی وراثت زندہ رہی۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھایا اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کی۔ تاہم، انہیں بھی انہی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر انہیں بھی دہشت گردی کی ایک کارروائی میں شہید کر دیا گیا۔ وقت گزرتا گیا، لیکن بھٹو کے عدالتی قتل کا داغ کبھی مٹ نہ سکا۔ یہ سوال ہمیشہ اٹھایا جاتا رہا کہ آخر کب پاکستان کی عدلیہ اس تاریخی غلطی کو تسلیم کرے گی اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے؟ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار آصف علی زرداری نے ادا کیا، جو نہ صرف بے نظیر بھٹو کے شوہر تھے بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی بنے۔ آصف علی زرداری نے 2011ءمیں بطور صدر پاکستان سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا تاکہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا ازسرنو جائزہ لیا جا سکے۔ یہ ریفرنس دراصل ایک تاریخی اقدام تھا، کیونکہ اس کے ذریعے پاکستان کی عدلیہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ماضی کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ یہ مقدمہ پاکستان کے عدالتی نظام کے لیے ایک کسوٹی تھا، جو یہ ثابت کرنے والا تھا کہ آیا عدلیہ واقعی آزاد ہے یا اب بھی ماضی کی روایات میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس ریفرنس میں واضح طور پر موقف اختیار کیا گیا کہ بھٹو کو غیر منصفانہ ٹرائل کے بعد سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں عدالتی قتل کے ذریعے راستے سے ہٹایا گیا۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد پاکستان میں قانونی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ پیپلز پارٹی اور جمہوری قوتوں نے اس اقدام کو تاریخی قرار دیا، جبکہ بھٹو کے سیاسی مخالفین اور بعض حلقے اس معاملے کو ماضی کا قصہ قرار دے کر دفن کرنا چاہتے تھے۔ تاہم، آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی نے اس مسئلے کو مسلسل زندہ رکھا ۔ یہ مقدمہ برسوں تک زیر سماعت رہا، اور مختلف قانونی ماہرین نے اس پر اپنی رائے دی۔ بالآخر، 2024 ءمیں سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے تسلیم کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیا گیا فیصلہ انصاف کے اصولوں کے منافی تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ بھٹو کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا اور یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک سیاہ باب تھا۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ کیا ایسے دیگر مقدمات پر بھی نظرثانی کی جا سکتی ہے جہاں عدلیہ نے دباؤ میں آ کر فیصلے دیے ہوں؟
یہ فیصلہ آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے ایک بڑی فتح تھی، جو کئی دہائیوں سے بھٹو کے لیے انصاف کی جنگ لڑ رہے تھے۔ زرداری کی یہ کوشش محض ذوالفقار علی بھٹو کے لیے انصاف حاصل کرنے کی جستجو نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان میں عدلیہ کو آزاد، غیرجانبدار اور حقیقی معنوں میں انصاف فراہم کرنے والا ادارہ بنایا جائے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے جو عوامی حقوق، جمہوریت اور انصاف کے اصولوں پر یقین رکھتی ہے۔ زرداری نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے نہ صرف پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر قومی سطح پر مضبوط کیا بلکہ بھٹو کے عدالتی قتل کیخلاف ایک مؤثر آواز بھی بلند کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے مٹانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ آج بھی زندہ ہیں، اپنی پارٹی کی شکل میں، اپنے نظریات کی صورت میں اور عوام کے دلوں میں۔ اور اس زندہ حقیقت کو آصف علی زرداری نے ایک نئی جہت دی، جس کے اثرات آنے والے سالوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ یہ تاریخی فیصلہ صرف ایک فرد یا ایک جماعت کی جیت نہیں، بلکہ پاکستان میں جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کی جیت ہے۔