• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اسرائیلی وزیراعظم جنگی مجرم ہے اس کیخلاف عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلایا جائے۔‘‘ یہ الفاظ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے ہیں جو انہوں نے گزشتہ دنوںایک بڑے جلسے سے خطاب میں کہے۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ ہم آپ کے سامنے اسرائیلی جنگی جرائم کی فہرست رکھتے ہیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ’’ایسے ارکان جو مستقل اسکے منشور کی خلاف ورزی کریں گے، انہیں اقوام متحدہ سے خارج کردیا جائیگا۔ٔ‘‘ لیکن اسرائیل 75برسوں سے اسکی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے، اس کیخلاف تاحال کوئی کارروائی ہوسکی ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔ اسرائیل کے صہیونیوں نے حسب ِعادت مسلّمہ اصولوںکو پامال کرتے ہوئے، بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اور تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے غزہ کے 16لاکھ جان بلب محصورین کیلئے امدادی اشیاءلے جانیوالے قافلے پر تاریخ کی بد ترین دہشت گردی کی۔ جسکے نتیجے میں 40ممالک سے تعلق رکھنے والے 20 افراد شہید اور 65سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ سینکڑوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیل نے کوئی پہلی دفعہ یہ جنگی جرم نہیں کیا ہے بلکہ اپنے ناجائر قیا م سے لیکر آج تک مسلسل کرتا چلا آرہا ہے۔ اسرائیل نے اب تک اقوام متحدہ کی 69 قراردادوں کو جوتے کی ناک پر رکھا ہے۔ اسرائیل نے جنیوا کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایا۔ اسکول اور کالجوں پر میزائل داغے۔ کیمیاوی ہتھیار اور فاسفورس بم استعمال کیے۔ گمنام جگہوں پر شہید ہونیوالے فلسطینیوں کے اجسام کی بے حرمتی کی۔ فلسطینی بچوں کو اغوا کرکے انکے اعضا نکالے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا۔ امدادی کارکنوں پر بمباری کی۔ یہاں تک اقوام متحدہ کے اہلکار بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔ مسلّمہ قانون ہے دورانِ جنگ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو امان حاصل ہوگا۔ ہتھیار نہ اُٹھانے والوں پر فائرنگ اور بمباری نہیں کی جائیگی لیکن اسرائیلی درندوں نے بچوں، مریضوں، ضعیفوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں اور فلاحی اداروں کے امدادی کارکنوں تک لہو میں نہلادئیے۔ غزہ پر صہیونی حملوں میں 1300فلسطینی شہری، 437کم عمر بچے، 110 عورتیں اور 123بوڑھوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ شہری آبادی پر اندھا دھند گولہ باری کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کیا گیا۔ جنگ کے دوران بیسیوں بے گناہوں حتیٰ کہ راہگیروں اور امدادی ورکروں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق امدادی اور انسانی ہمدردی کے تحت جانیوالے کارکنوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اسرائیل متعدد بار بار ایسا کرچکا ہے۔ گزشتہ سال 2009ء میں فلسطینی عوام کو امداد پہنچانے والے امدادی کارکنوںکے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس وقت گرفتار کئے گئے کئی کارکن تاحال جیلوں میں قید ہیں۔ ایک مسلمان قیدی نے ”رملہ جیل“ سے لکھا ہے: ”میرا نام سنتھیا میکنیے ہے۔ میں انسانی حقوق کے ان 21 ارکان میں سے ہوں جو اس وقت قید ہیں۔ جنگ کے دوران ہم زخمیوں کیلئے ادویات پہنچانے غزہ کی طرف جارہے تھے اسرائیلیوں نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کردی۔ ہمیں پکڑکر گرفتار کرلیا اور پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہم دنیا کے مہذب لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟ ہم غزہ کے زخمیوں تک بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچانا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی فوج نے یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا کہ دہشت گردوں کو طبی امداد کیوں پہنچارہے ہو؟ ان فلسطینیوں کو یونہی تڑپ تڑپ کر مرنا چاہئے۔“ پس منظر کے طورپر یاد رہے اس وقت اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں 1500مرد، 400 کے قریب معصوم بچے اور 210 خواتین انتہائی صعوبتیں اُٹھارہے ہیں۔ فلسطینی ”محکمہ اسیران“ کے ترجمان کا کہنا ہے فلسطینی قیدیوں پر نئی نئی تیار کردہ ادویات کے تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔ بیشتر تجربات معصوم بچوں پر کیے جاتے ہیں۔ ان ادویات کے استعمال سے ایک ہزار قیدی شدید متاثر ہیں جن میں سے ایک سو پچاس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکا ہے اور اسکی ناجائز توسیع کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز 1947ء سے ہوا۔ اسکے بعد سے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے حالانکہ قیام امن کے بین الاقوامی منصوبے ’’روڈ میپ‘‘ کے تحت اسرائیل نے یہودی بستیوں پر کام روکنے کا وعدہ کیا تھا۔ انصاف تو ملاحظہ کیجئے! اسرائیل نے 85فیصد پانی اپنے یہودی آباد کاروں کیلئے مخصوص کیا ہے جبکہ باقی 15فیصد فلسطینی مسلمانوں کیلئے چھوڑا ہوا ہے۔ غربِ اردن اور غزہ میں بنی تمام یہودی بستیاں بین الاقوامی اصولوں کے تحت غیر قانونی ہیں۔ ایرئیل نامی ایک یہودی بستی میں 18 ہزار صہیونی رہائش پذیر ہےں۔بش دور میں دنیا میں سب سے زیادہ امداد اسرائیل کو دی گئی۔ امریکا کے بیشتر خیراتی ادارے اپنی ساری رقم اسرائیل کو بھیجتے ہیں۔ پھر ان امدادی رقوم کو فلسطینیوں کے استحصال کے ’’کارِخیر‘‘ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔ ”عطیرت کوہنیم“ نامی ایک اسرائیلی تنظیم امریکا سے تعلیم کے فروغ کیلئے امداد وصول کرتی ہے لیکن اس رقم سے عربوں کی جائیداد خرید کر یہودیوں کو مفت فراہم کرتی ہے۔ ایک اور ادارہ ”امریکن فرینڈز آف کوہنیم“ ہر سال لاکھوں ڈالر امریکا سے جمع کرکے فلسطینی زمینوں پر تعمیرات کرتا ہے۔ سوال یہ ہے عالمی سطح پر کیا اب بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟اقوام متحدہ نے بھی کہہ دیا ہے اسرائیلی حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیںمگر اسرائیل اس عالمی ادارے کی بات مانتاہی کب ہے؟ اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ ”رچرڈ گولڈ اسٹون“ نے چشم دید واقعات، شواہد، معلومات اور عینی شاہدین کے انٹرویوز کی روشنی میں جو نتائج نکالے گئے وہ یہ تھے اسرائیل جنگی جرائم میں پوری طرح ملوث ہے۔ اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعدجنیوا میں ”انسانی حقوق کونسل “کے رکن ممالک کا خصوصی اجلاس ہوا ۔ 25ملکوں نے گولڈ اسٹون رپورٹ کی توثیق کی۔ لیکن اس کے بعد کچھ بھی نہ ہوا کیونکہ اسکی پشت پر ’نیو ورلڈ آرڈر“ پر عمل پیرا وہ طاقت ہے جو دنیا بھر سے دہشت گردی ختم کرنیکی بظاہر دعویدار ہے مگر درحقیقت وہ دہشت گردوں کی سرپرست ہے۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے بقول امریکا انسانی حقوق کا قاتل ہے۔ اب کس سے منصفی چاہیں؟؟؟

تازہ ترین