کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کہاں پیدا ہوئے تھے؟ جی نہیں۔ آپ لکھنؤمیں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ آپ کو بتایا گیا تھا کہ آپ لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ دنیا کے ہر بچے کی طرح آپ ننھے منے چھوٹے سے گوگلوگلگلے پیدا ہوئے تھے۔ روتے ہوئے اس دلفریب دنیا میں آئے تھے، کیسے ممکن تھا جان سکتے کہ کہاں، کس شہر میں پیدا ہوئے تھے؟ آپ کو جو کچھ بتایا گیا تھا، وہی پہچان آپ نے سمیٹ لی تھی۔ آپ کے شناختی کارڈ میں بھی وہی اندراج ہے جو آپ کو بتایا گیا تھا۔ آپ لکھنؤ میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ آپ ضلع لاڑکانہ کے قصبہ رتوڈیرو میں پیدا ہوئے تھے۔ رتوڈیرو کے دفتر ٹنڈو باگو کے پیدائشی فائل میں آپ کی آمد کے اندراج موجود ہیں۔ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ بڑا آدمی بن جانے کے بعد آپ نے اپنی جائے پیدائش کا اتہ پتہ دفتر کی فائلوں سے گم کرادیا ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ بڑے آدمی دنیا کے بڑے شہروں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں سے سفر آخرت شروع کرتے ہیں اور خالق حقیقی سے جاملتے ہیں۔ ایک سیاسی کہاوت ہے کہ بڑے آدمی بڑے شہروں میں پیدا ہوتے ہیں اور بڑے شہر سے اَن دیکھی دنیا کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ خلیل جبران لبنان کے ایک چھوٹے سے دیہات بشیری میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وہ امریکہ کے شہر نیویارک میں پیدا ہوئے تھے۔
میرے کہنے کا مطلب ہےکہ یہ ایک انسان کے لئے بعید ہے۔ امکان سے باہر ہے کہ وہ یاد رکھ سکے کہ کس شہر میں اور کب پیدا ہوا تھا۔ ہم سب سنی ہوئی بات پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ لوگوں کی بتائی ہوئی بات پر اعتبار کر لیتے ہیں۔ ہم مان لیتے ہیں کہ ہم نے لاڑکانہ کے قصبے رتوڈیرو میں نہیں بلکہ لکھنؤ میں جنم لیا تھا۔
عام طور پر دو مرتبہ ایسے مواقع سے ہمارا نادانستہ آمنا سامنا ہو جاتا ہے جب حتمی طور پر ہماری جائے پیدائش اور سن کا تعین ہمیشہ کے لئے کرلیا جاتا ہے۔ ملی ہوئی شناخت مرتے دم تک ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ بڑے بوڑھوں سے ملی ہوئی معلومات کے مطابق ہمارے عقیدےکا تعین کیا جاتا ہے۔ مثلاً میں نوزائیدہ کی صورت میں کسی کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا کسی اللہ کے نیک بندے کو ملتا تو وہ اپنے عقیدے کے مطابق مجھے اپنے عقیدے سے وابستہ کر دیتا۔ کچرے کے ڈھیر سے مجھے اٹھانے والا اگر ہندو ہوتا تو وہ مجھے اپنے عقیدے سے وابستہ کرنے کے بعد میری پرورش کرتا۔ اگر مجھے کچرے کے ڈھیر سے اٹھانے والاعیسائی ہوتا تو پھر وہ مجھے اپنے عقیدےکے مطابق تعلیم و تربیت دیتا۔ وہ اگر یہودی ہوتا تو پھر وہ مجھے یہودی عقیدےسے وابستہ کر دیتا۔ مجھے کچرے کے ڈھیر سے اٹھانے اور پالنے والا شخص اگر سکھ ہوتا تو پھر آج سکھ مت سے میری شناخت ہوتی۔ کچرے کے ڈھیر سے اٹھا کر مجھے پالنے والا مسلمان ہوتا تو آج میری شناخت مسلمان کے طور پر ہوتی۔ عقیدے کے معاملے میں ہم اپنی من مانی نہیں کرسکتے۔ اس معاملے میں ہم پیدائشی طور پر بے بس ہوتے ہیں۔ ہمیں پالنے پوسنے والے جس عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، وہی عقیدہ وہ ہمیں دے دیتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ آپ سے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ وہ آپ کو اپنے عقیدے میں ڈھال دیتے ہیں۔
میرے ایک دیرینہ دوست کا نام تو کچھ اور تھا۔ مگر ہم دوستوں میں وہ سرپھرا کہلوانے میں آتا تھا۔ کچھ باتوں میں وہ اپنی مرضی سے باز نہیں آتا تھا۔ بچپن میں ہی سرپھرے کو پتہ چل گیا تھا کہ جیل میں پھانسی کا پھندہ واجب القتل کے گلے میں ڈالنے، اور اس کے ہاتھ پیرباندھنے سے لے کر پھانسی کے تختے کا لیور کھینچنے تک کے تمام کام کرنے والا شخص اس کا حقیقی باپ نہیں تھا۔ وہ جلاد کو کپڑے میں لپٹا ہوا قبرستان میں پڑا ہوا ملا تھا۔ وہ نام نہاد باپ کی مجبوری سے واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا نام نہاد باپ پھانسی دینے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتا تھا۔ مگر کیا کیجئے کہ نام نہاد باپ کا کام سرپھرے کو پسند نہیں تھا۔ اس لئے سرپھرے نے اپنے نام نہاد والد کا عقیدہ دل سے قبول نہیں کیا تھا۔
ہم سب اپنے وجود میں جاری جنگ لڑتے رہتے ہیں۔جنگ میں کبھی ہارتے اور کبھی جیتتے رہتے ہیں۔ میں نے کچھ سرپھرے ایسے بھی دیکھے ہیں جو وجود کی جنگ آخری سانس تک لڑتے ہیں۔ اور پھر بغیر کسی پچھتاوےکے سماج کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ ہمارے سرپھرے دوست نے وجود کی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس نے جلاد کو تمام ترمحبتوں کے باوجود اپنا حقیقی باپ قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وجود کی جنگ جاری رکھنے کے لئے وہ اپنی سالگرہ قبرستان میں اس روز مناتا ہے جس روز وہ اپنے جلاد مہربان کو کپڑے میں لپٹا ہوا ایک قبرکے قریب پڑا ہوا ملا تھا۔ اس دوران ہمارے سرپھرے دوست نے ایجوکیشنل ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کرلی ہے مگر اب تک بے روزگار ہے۔ ملازمت والے ایپلی کیشن فارم میں وہ باپ کے نام کی جگہ نامعلوم لکھتا تھا، بلکہ اب تک لکھتا ہے۔ ملازمت دینے والے حیران ہوکر پوچھتے ہیں، ’’کیا کہنا چاہتے ہو تم؟‘‘
جواباً سرپھرا کہتا ہے۔ ’’میں اکیلا نہیں ہوں۔ میری طرح کے بیشمار میرے بھائی ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے ، گندے نالوں سے، ویرانوں سے ، قبرستانوں سے اٹھا کر لے جانے والے ان کو ولدیت میں اپنا نام دیتے ہیں۔ مگر میں کسی نیک انسان کا نام داغ دار کرنانہیں چاہتا ۔ میں معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا بن کر زندہ رہنے کا حق مانگتا ہوں‘‘۔