ایسے عالم میں، کہ بھارت اپنے ماضی کے کردار کے عین مطابق پاکستان کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرتا محسوس ہورہاہے، اسلام آباد کا ردّعمل ملک کے سب سے بڑے سیکورٹی ادارے قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کی کارروائی کی صورت میں ان سطور کی اشاعت سے پہلے سامنے آسکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ اجلاس بھارت کی طرف سے بدھ 23اپریل کے اعلان کردہ ان اقدامات کے حوالے سے طلب کیا ہے جن سے خطے میں جارحیت مسلط کرنے کے ارادوں کا اظہار ہوتا ہے۔ نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 28سیاحوں کی ہلاکت کے واقعہ کے 5منٹ بعد ہی پاکستان کو موردالزام ٹھہراکر پروپیگنڈہ مہم شروع کردی اوراگلے ہی روز پاکستان کیخلاف سخت اقدامات کا اعلان کرکےتشویش کی صورتحال پیدا کردی۔ بھارت ماضی میں جس سفاکی سے انسانی المیے خود تخلیق کرکے انکے الزامات پاکستان پر عائد کرتا رہا ، اس کی طویل تاریخ سمیت متعدد وجوہ کی بنا ءپر دفاعی تجزیہ کارپہلگام حملے کو بھارت کے پہلے سے طے کردہ فالس فلیگ آپریشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سمیت حالات پر نظر رکھنے والے حلقے اس امر پر حیران ہیں کہ بھارتی وقت کے مطابق دوپہر تین بجے ہونیوالے پہلگام حملے کے صرف پانچ منٹ بعد بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے جڑے سوشل میڈیا اکائونٹس پر پاکستانی دراندازی کے الزامات کی تکرار کن ثبوتوں اور شواہد کی بنا پر ہوئی ؟پاکستان میں رونما ہونیوالے دہشت گردی کے بڑے واقعات میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھی شامل ہے مگر بلوچستان میں بھارتی نیٹ ورکس کی موجودگی سے متعلق کلبھوشن یادیو کے اعترافات کے باوجود اسلام آباد نے بھارت کو موردالزام ٹھہرانے اور جوابی کارروائی کے عاجلانہ اقدامات سے گریز کیا اور تحقیق و تفتیش پرتوجہ دی جس میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ۔اسلام آباد علاقائی سطح پر ہیجان پیدا کرنے کے مقابلے میں سفارتکاری سے معاملات درست کرنے کو ہمیشہ ترجیح دیتا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق بھارت نے پہلگام واقعہ پر اسلام آباد کو موردالزام ٹھہرانے سے لیکر سندھ طاس آبی معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرنے سمیت جو عاجلانہ اقدامات کئے وہ خود اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ پہلے سے تیار کردہ اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام کی نئی کیفیت بھارت سے ہضم نہیں ہوپارہی۔ بھارتی کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس میں انڈین سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے جو اعلانات کئے انکے بموجب واہگہ اٹاری سرحد بند، پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ، بھارت میں موجود پاکستانی شہریوں کیلئے 48گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کاحکم، سارک ویزا معاہدے کے تحت انڈیا کے سفر کی اجازت کے خاتمے، نئی دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں تمام دفاعی، فوجی، بحری اور فضائی مشیر ناپسندیدہ قراردینے، سفارتی عملہ محدود اور بھارتی دفاعی اتاشی کو پاکستان سے واپس بلانے کے فیصلے سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کو ا نکے جواب میں کارروائی کا اختیار ہے جبکہ 1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ دونوں فریقوں (پاکستان اور انڈیا) کی یکساں منظوری کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم نئی آویزش کا آغازہوچکا ہے۔ پاکستانی عوام، سیاسی عناصر اورمسلح افواج ہر آز مائش کے وقت ملکی بقا کے لئے فرد واحد کی طرح متحد نظر آئے۔ وقت آگیا ہے کہ 1965ء کی جنگ اور بھٹو اندراگاندھی مذاکرات کے وقت کی مانندپوری قوم کی سیاسی قوت متحد و منظم ہوکر سامنے آئے۔ اس مقصد کیلئے حکومت کو کل جماعتی کانفرنس اور قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانا چاہئے۔ پاکستانی عوام اور مسلح افواج مل کر ایک بار پھر ثابت کردیں گے کہ ان کا ملک ناقابل تسخیر ہے۔