آج کی بے معنی بات چیت یعنی کلامی کچھ لوگوں کے درمیان کی گفتگو کا خلاصہ ہے یہ خود کلامی نہیں ہے ۔ گفتگو جانے مانے دادا اور مٹھی بھر مست ملنگوں کے درمیان ہورہی تھی ۔ وہ لوگ کس قسم کی گتھی سلجھانے کے چکر میں تھے؟ کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔
وہ لوگ کسی گھمبیرسیاسی معاملے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے تھے ۔ وہ لوگ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوریوں کو دور کرنے کے بارے میں بھی گفتگو نہیں کررہے تھے۔ وہ لوگ ملکی اور غیرملکی سیاستوں کےبارے میں محو گفتگو نہیں تھے ۔ اصل میں وہ لوگ سیاستدان تھے یہی نہیں گفتگو ایک دبنگ دادا اور انیک مست ملنگوں کے درمیان ہورہی تھی ۔ مست ملنگ جاننا چاہتے تھے کہ ایک شخص دیکھتے ہی دیکھتے اچانک آدمی سے دادا کیسے بن جاتا ہے؟ وہ شخص دادا بننےکے بجائے شیر،چیتا،لومڑ،گینڈا اور ہاتھی وغیرہ کیوں نہیں بن سکتا؟ وہ کیوں دادا بننا پسند کرتا ہے؟ چھوٹے موٹے مست ملنگ دادا لفظ کے چھوٹے موٹے معنی سمجھ سکتے تھے اور اپنی سمجھداری پر خوش ہوتے تھے اور بغلیں بجاتے تھے ۔ چھوٹے موٹے مست ملنگ مانتے تھے کہ باپ کے باپ کو یا تو مہا باپ کہا جاتا ہے یا پھر دادا بلایا جاتا ہے ۔ آسان تشریح کےمطابق چھوٹے بڑے مست ملنگ سمجھتے تھے کہ والد کے والد کو دادا ا وروالد کے والد کے والد کو پڑدادا کہا جاتا ہے ۔ برصغیر کی ایک سو اٹھائیس بولی اور لکھی جانے والی زبانوں کے ماہرین کایہ ایک متفقہ فیصلہ ہے۔ تحقیقی فیصلوں میں رد و بدل کی گنجائش نہیں رہتی ۔ آپ کو لازمی طور پر قبول کرنا پڑتا ہے کہ والد کے والد کو دادا ، اور والد کے دادا کو پڑ دادا کہا اور سمجھا جاتا ہے اس تحقیقی فیصلہ پر گرامر کی مہر لگا دی جاتی ہے ۔
ہم جس دادا کی بات آپ کو بتانا چاہتے ہیں وہ ادھیڑ عمر کا ہٹاکٹا شخص تھا۔ ہم مست ملنگ نہیں جانتے تھے کہ وہ کسی کے والد کا والد تھا اس لئے عام طور پر لوگوں کے درمیان دادا کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا ۔ وہ حضرت کسی کے والد کے والد تھے یا کہ نہیں تھے ۔ مگرمعاشرےکے چھوٹے بڑوں کے دادا بنے ہوئے تھےآپ ان کا قصہ غور سے سُنئے۔ آپ کی سمجھ میں بات آجائے گی کہ ادھیڑ عمر کا ہٹا کٹا شخص ہم سب کا دادا کیوں بناہوا تھا۔
دادا نے کھنکارتے ہوئے کرخت لہجے میں مست ملنگوں کے ٹولے سے کہا ’’دنیا کے ہر دادا کی طرح میرے پاس فالتو وقت نہیں ہوتا میرا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے ۔ اب بتلاؤ کہ تم لوگ کیا پوچھنے آئےہو؟‘‘
ایک کبڑے مست ملنگ نے پوچھا ’’سرکار کیسے پتا کیا جائے کہ ایک شخص سچ مچ کا دادا ہے یا والد کے والد والا گرامری دادا ہے ۔‘‘
دادا کو بات اچھی نہیں لگی دادا نے کرخت لہجے میں کہا ’’کراچی کے اصلی لوگ دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں کہ کون والد کے والد والا گرامری دادا ہے اور کون اصلی دادا ہے‘‘ ۔
کبڑے ملنگ نے پوچھا ۔’’اب تو کراچی کے اصلی باشندے اقلیت میں بدل چکے ہیں۔وہ اب چیخ تو سکتے ہیں۔مگر بومبڑی مار نہیں سکتے۔انکی کوئی وقعت نہیں رہی،کراچی آکر پہلی مرتبہ سمندر دیکھنے والوں کو کیسے پتہ چلے کہ کون والد کا والد والا گرامری دادا ہے اور کون اصلی دادا ہے‘‘۔
دادا نے کبڑے مست ملنگ کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے قریب بلایا کبڑا ملنگ جیسے ہی دادا کے قریب پہنچا دادا نے ایک زور دار جھانپڑ کبڑے ملنگ کے ملول چہرے پر رسید کردیا ۔ کبڑا ملنگ لڑکھڑاتے ہوئے دور جاگرا۔ مست ملنگوں کے اوسان خطا ہوگئے ۔
دادا نے دھرتی پر پڑے ہوئے کبڑے مست ملنگ سے پوچھا ’’ ابھی ابھی میں نے تمھیں جھانپڑ رسید کیا ہے ۔ کیا تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو؟‘‘
کبڑے ملنگ نے کان چھوتے ہوئے نفی میں سر کو جنبش دی دادا نے غصہ سے کہا ’’دنیا بھر کی رسوائی اور ذلت سہنے کے باوجود جب تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ میں گرامری دادا نہیں ہوں ، میں اصلی دادا ہوں‘‘۔
مست ملنگوں کے ٹولے پر دہشت طاری ہوچکی تھی۔ وہ ہانپتے کانپتے ہوئے دادا کی طرف دیکھ رہے تھے دادا نے مست ملنگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ میں جانتا ہوں ، لوگ مجھ سے نفرت کرتےہیں مگر ہربار الیکشن میں لوگ مجھے اور میری اگلی پچھلی نسلوں کو ووٹ دیکر کامیابی انکے قدموں میں ڈال دیتے ہیں۔جانتے ہو کیوں؟ وہ اسلئے کہ لوگ ڈر کے مارے ہمیں ووٹ دیتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمیں ووٹ نہ دینے کے بعد ان کی روزی روٹی کے راستہ بند ہوجاتے ہیں اور زمین ان پر تنگ ہوجاتی ہے‘‘۔
اتنا کچھ دیکھنے اور سننے کے بعد مست ملنگ جان چکے تھے کہ ان کا آمنا سامنا گرامری دادا سے نہیں بلکہ اصلی دادا سے ہوا تھا ۔ دادا نے مست ملنگوں سے پوچھا ’’ اسی ملک کے رہنے والے ہو یا کہیں اور سے تشریف لے آئے ہو؟‘‘۔ ایک ٹھگنے مست ملنگ نے کپکپاتے ہوئے کہا ’’کل تک تو ہمیں رانی وکٹوریا کا جنم دن بھی یاد تھا آج ہم سب کچھ بھول بیٹھے ہیں ‘‘ ۔ ’’اصل میں تم لوگوں نے مجھےٹھیک سے پہچانا نہیں ہے۔ میں بادشاہ دادا ہوں‘‘۔ دادا نے کہا ’’ جب تمھیں یاد آجائے ، مجھے اپنے ملک کا نام بتانا جب میرا جی چاہتا ہے میں کسی بھی ملک کا بادشاہ بن جاتا ہوں اور لوگوں کو جمہوریت کا مزہ چکھاتا ہوں۔‘‘