آنسو اخلاص اور صداقت کے گواہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے، ارشاد نبویؐ کے مطابق اپنے اُن بندوں پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے جن کی آنکھ سے اللہ کی محبت میں آنسو کا ایک قطرہ بھی نکلا ہو۔ اسی وجہ سے ہمیں اپنے دینی رہنماؤں اور سیاسی قائدین میں ہمیشہ ایسے افراد کی تلاش رہی جن کی باتوں، دعووں اور وعدوں کی گواہی ان کی رُندھی ہوئی آواز اور پرنم آنکھوں سے مل سکے۔ جن کے دل کا درد گلو گیر ہو جائے اور اپنی بات مکمل کرنا ان کے لئے ممکن نہ رہے تاکہ ملک و ملت سے ان کے اخلاص پر دھوکہ کھا جانے کے کسی خدشے کے بغیر اعتبار کیا جاسکے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے رہنماؤں کی تلاش میں ہمیں کم ہی کامیابی ہوئی۔ ان میں گفتار کے غازی تو بہت ملے۔ باتیں بناکر اپنا الّو سیدھا کرنے کے فن کے ماہر تو ہر بے شمار نظر آئے مگر قوم و ملک کا دل میں ایسا درد جو آنکھوں سے ٹپک پڑے تلاش کرنا اکثر محال رہا اور اقبال کا یہ گلہ عین حقیقت محسوس ہوا کہ:
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
جلسوں میں دھواں دھار تقریریں کرنے، پارلیمانوں میں اور ٹی وی اسکرینوں اور اخبارات کے صفحات پر چیخنے چنگھاڑنے، سیاسی مخالفوں کے بخیے ادھیڑنے، اپنے موقف کو بہرصورت درست ثابت کرنے کے لئے استدلال و منطق کے تمام داؤ پیچ کے استعمال میں مثالی مہارت کا ثبوت دینے، دلائل ختم ہوجانے پر بے بنیاد الزام تراشیوں، گالم گلوچ حتیٰ کہ دھول دھپے اور ہاتھا پائی پر اتر آنے والے اہل دین و سیاست تو ہر طرف بکھرے نظر آتے ہیں مگر ملک و ملت کی مشکلات و مصائب پر بناوٹ اور تکلف سے پاک حقیقی دل سوزی سے بات کرنے والے تقریباً نایاب ہیں لیکن حال ہی میں ہم نے ایک ایسا خطاب سنا جس سے یہ اطمینان ہوا کہ ہماری قیادت کی صفیں ایسے افراد سے خالی نہیں جو ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر پوری درد مندی کے ساتھ ملک و قوم کے مسائل کے حل کی حقیقی خواہش رکھتے ہیں۔یہ صدر مملکت جناب ممنون حسین کا جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر کیا جانے والا خطاب تھا۔ اس تقریب میں ہماری موجودگی اپنی بیٹی کے حوالے سے تھی جس نے اسی یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ کے شعبے میں تعلیم مکمل کی ہے اور سند عطا کے اس موقع پر طالبات کے والدین بھی مدعو کئے گئے تھے۔ ممنون حسین صاحب ہمارے لئے نئے نہیں، متوسط طبقے اور اعلیٰ خاندانی روایات کے حامل ایک صاف دل اور خوش اخلاق انسان اور اچھے مسلمان کی حیثیت سے ہم انہیں مدت سے جانتے ہیں۔ وہ تعلقات نبھانے اور جائز مسائل کے حل میں دوسروں کی آخری حد تک مدد کرنے والی شخصیت ہیں۔ اس کے باوجود وزیراعظم نے انہیں صدر بنانے کا فیصلہ کیا تو ذاتی حوالے سے خوشی کے باوجود اُن کی بے انتہا سادگی کے سبب ہمارا تاثر یہ تھا کہ یہ منصب عدلیہ سے تعلق رکھنے والی کسی نیک نام شخصیت کو ملنا چاہئے تھا اور مسلم لیگ (ن) کے سابقہ رجحان کے پیش نظر بالعموم ملک بھر میں یہی توقع بھی کی جارہی تھی لیکن ہفتے کے روز ان کا خطاب سن کر اندازہ ہوا ممنون صاحب محض ایک محب دین اور محب وطن سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ ایک بیدار مغز قومی رہنما بھی ہیں جو سیاسی شاطر ہونے کی شرط تو شاید پوری نہ کرتا ہو مگر مومنانہ فراست اور بصیرت کا حامل ضرور ہے۔ لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کے بعد انہوں نے طالبات اور حاضرین محفل سے دل کی باتیں کیں۔ اُن کے سادہ الفاظ اور دردمندانہ لب و لہجہ ان کے اخلاص اور دیانت کا کھلا ثبوت تھا چنانچہ’’دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے‘‘ کے مصداق ان کی باتوں نے سننے والوں کو عام طور پر متاثر کیا اور ان کی آمد سے پہلے ان کی سادہ شخصیت کے حوالے سے جو تاثر پایا جاتا تھا اس میں واضح طور پر مثبت تبدیلی محسوس ہوئی۔ طالبات کو انہوں نے تاریخی اور دینی حوالوں سے قیمتی معلومات فراہم کیں۔ اپنی تعلیم کو قومی تعمیر و ترقی اور نئی نسل کی بہتر تربیت کے لئے استعمال کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ مغرب زدگی سے بچنے اور اپنا دینی، تہذیبی اور پاکستانی تشخص قائم رکھنے کی نصیحت کر کے ظاہری معاملات کی تہہ تک رسائی کی تعلیم دی۔ انہوں نے مستند معلومات کی روشنی میں واضح کیا کہ موجودہ حکومت ملک کو درپیش سنگین مسائل کے حل کے لئے انتھک جدوجہد کررہی ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے، اس لئے اس حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے اور جو لوگ اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے کوشاں ہیں، انہیں مسترد کردیا جانا چاہئے۔ان کی اس خوبصورت اور پراثر بات چیت کا کلائمکس یہ تھا کہ عشروں سے آشوب زدہ کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ان کا گلا رندھ گیا، آنکھوں میں آنسو آگئے اور بات جاری رکھنا ان کے لئے مشکل ہوگیا۔ جس کے بعد محفل میں عام تاثر یہ تھا کہ ایسے ہی حکمراں قوم کے معاملات درست کرسکتے ہیں جن کا دل ملک و ملت کے درد سے معمور ہو اور جن کی ساری وفاداریاں اس سرزمین اور اس کے مقصد وجود سے وابستہ ہوں۔ اگرچہ حکمرانوں کے حق میں لکھنے کے بجائے ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو انہیں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر خود جانچ پرکھ کر ان کے حق میں یا ان کے خلاف فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہئے لیکن اس وقت ملک میں جو فضا بنائی جا رہی ہے اور بعض قوتیں انتشار کو ہوا دے کر بظاہر ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جن کے نتیجے میں ملک میں امن و امان کے قیام ،معیشت کی بحالی اور سماجی بہتری کے لئے کی جانے والی مثبت کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے، اس فضا میں ہمارے نزدیک قوم کو صدر ممنون حسین کی اس اپیل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ وہ انتشار پھیلانے والی قوتوں کو مسترد کردیں۔ اپنے پورے عرصہ حکمرانی میں ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہ کرنے اور محض دس ماہ میں ہزاروں میگاواٹ بجلی کے منصوبے شروع کر دینے والے حکمرانوں میں لوگوں کو فرق کرنا چاہئے۔ ملک میں سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں قطعی ناکام رہنے والے اور اپنے پہلے ہی سال میں دسیوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے سامنے لے آنے والوں کو ایک ہی صف میں نہیں رکھا جانا چاہئے۔ دس سال سے بم دھماکوں ، ڈرون حملوں اور خودکش بمباروں کا ہدف بنے رہنے والے ملک میں قیام امن کے لئے بات چیت کے ذریعے نتیجہ خیز کاوشیں کرنے والی قیادت کی قدر کی جانی چاہئے۔ حکمرانوں کے حق میں لکھنے کے بجائے اگرچہ ان کا احتساب ہی ہمارے قلم کا شیوہ ہے، اقتدار کے ایوانوں کے خیانت کار مکینوں کے مقابلے میں ایک دیانتدار خاکروب اور ایماندار موچی ہمارے نزدیک زیادہ معزز ہے۔ لیکن اچھے اور برے حکمرانوں میں فرق بھی ضروری ہے۔ آج ملک کی بھلائی کی کوششوں کو ملیامیٹ کرنے کی سرگرمیاں جس انداز میں بڑھ رہی ہیں، اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہر محب وطن پاکستانی پر فرض ہوگیا ہے اور اس تحریر کے ذریعے ہم نے اپنی اسی ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔