ہر انسان دنیا سے ایک دن چلاجاتا ہے اور اپنے پیچھے اپنی اچھی اور بُری یادیں چھوڑ جاتا ہے ۔ اور یہ یادیں اس وقت بہت اہمیّت کی حامل ہو جاتی ہیں جب انہیں موجودہ وقت کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے ۔
آج کل پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ جب اس کی معاشی، سیاسی اور سماجی زبوں حالی اس کے لیے بے شمار سماجی ومعاشی مسائل اور خطرات کا باعث بن چکی ہے اور یہ براہِ راست اُن الٹے سیدھے تجربوں کا نتیجہ ہے جن کی وجہ سے نہ تو پاکستانی معیشت میں استحکام آسکا ہے اور نہ ہی ملک سیاسی پختگی کے دور میں داخل ہو سکا ہے۔ جس کی وجہ سے ملکی سالمیّت پر ہمیشہ خطرات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں ۔ آج جب پاکستان کی ناگفتہ بہ معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر بھارت نے پہلگام واقعے کو بہانہ بنا کر جس طرح پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دی ہے ۔ وہ واقعی ایک خوفناک ردّ ِ عمل ہے ذرا سوچئے کہ بھارت جو آبادی اور وسائل کے لحاظ سے ہم سے سات گنا بڑا ملک ہے اور گزشتہ بیس برسوں میں اس نے جو قابلِ تقلید معاشی ترقی کی ہے اس کے مقابلے میں پاکستان نے اتنی ہی تیزی سے معاشی تنزّلی کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ ایسے میں پاکستان ، بھارت کے جارحانہ اقدامات کا کیا جواب دے سکتا تھا؟اگر پاکستان کے پاس ایٹمی قوت نہ ہوتی تو اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہوتا کہ پاکستان اب تک بھارتی جارحیّت کے ہاتھوں نہ جانے کن مزید صدمات سے دوچار ہو چکا ہوتا اور مایوسی کے اس گھٹا گوپ اندھیر ے میں اگر امید اور مستقبل کی کوئی کرن باقی ہے تو وہ ہے پاکستانی قوم کے لیے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی دی ہوئی ایٹمی طاقت جس نے نہ صرف قوم کو حوصلہ مند بنا دیا ہے بلکہ وہ مشکل حالات سے نبردآزما ہونے کے لیے بھی پُر عزم ہے۔
یہ نہ صرف قوم کے ناقابلِ تسخیر ہونے اور عمومی فوجی طاقت کے حامل ہمارے طاقتور دشمنوں کے لیے بھی سدّ ِ راہ ہے بلکہ اُس عظیم شخص کی فہم و فراست کا ایک انمٹ نقش بھی ہے جسے نصف صدی پہلے یہ ادراک حاصل تھا کہ انڈیا جیسے بڑے دشمن کا مقابلہ ہم روائتی ہتھیاروں سے نہیں کر سکتے اور ہمیں ہر صورت میں ایٹمی طاقت بننا ہے چاہے ہمیں اس کے لیے گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے۔وہ شخص اتنا بڑا مدبّر اور حب الوطن تھا کہ اسے اس ایٹمی پروگرام کے بدلے میں عبرت کا نشان بنائے جانے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن اس نے انکی پروا نہ کی اور فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ کا معاہدہ ختم کرنے سے انکار کر دیا۔
سب جانتے ہیں کہ بھٹو کے عدالتی قتل میں پسِ پردہ جو فرد ِ جرم تھی اس میں سب سے بڑا جرم پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا تھا۔ اس سے پہلے جون 1972ءمیں ہونیوالے شملہ معاہدے میں بھی ایک شکست خوردہ قوم ہونے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے جس طرح مذاکرات کی میز پر فاتح انڈیا کو شکست دی ۔ وہ بھی اس کی سیاسی بصیرت کا ایک کارنامہ ہے ۔ جس کے تحت نہ صرف بھارت کو پاکستان کے جنگی قیدی اور مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ واپس کرنا پڑا بلکہ بنگلہ دیش اور بھارت کو اپنے اس مشترکہ مطالبے سے بھی دستبردار ہونا پڑا جس کے مطابق پاکستانی فوجی افسروں پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلانے پراصرار کیا جا رہا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہیں کشمیر کے معاملے میں بھی پاکستان کے اصولی موقف کو تسلیم کرنا پڑا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ۔ اس معاہدے کے بعد ہندوستان میں مسز اندرا گاندھی کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا کہ اس نے ڈھاکہ میں جیتی ہوئی جنگ کو شملہ میں مذاکرات کی میز پر ہار دیا اور پاکستان جنگ ہارنے کے باوجود اپنے اصولی موقف کو منوانے میں کامیاب رہا۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں اس عظیم مدبّر نے چند برسوں کے اندر جس طرح ایک شکست خوردہ قوم کو اپنے پائوں پر کھڑا کردیا، وہ بھی حیران کن کا میابی ہے کہ پاکستان کو نہ صرف ایٹمی طاقت بنانے کا آغاز کیا بلکہ پچیس سال کے بعد پاکستان کو اس کا متفقہ عوامی اور جمہوری آئین بھی دیا۔ جوآج تک ڈکٹیٹروں کے راستے کی دیوار بنا ہوا ہے ۔ اور کسی نے بھی آج تک اسے منسوخ کرنے کی جراء ت نہیں کی۔
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں نئی زندگی دینے والا یہ بہادر لیڈربعض احسان فراموشوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جو آج اس کے ایٹمی پروگرام کی چھتری تلے پناہ لے کر اوراسے اپنا کارنامہ گردان کر قوم کو ناقابلِ تسخیر دفاع کا مژدہ سنا رہے ہیں، کاش ہم اس عظیم لیڈر کی قدر کرتے ۔
آج ہر پاکستانی اپنے ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا احسان مند ہے جس کی ذہانت ، سیاسی بصیرت اور دانشمندانہ قیادت نے پاکستان کو ان برے حالات میں بھی آزادی، خود مختاری اور تحفظ کا احساس بخشا ہے۔ اس لیے آج ذوالفقار علی بھٹو بہت یاد آرہے ہیں۔ وہ عظیم تھے اور ہمیشہ عظیم رہیں گے۔ آج کا شعر۔
یہ سرداری سر دے کر ہی ملتی ہے یہ یاد رہے
تخت کو ان سے نفرت ہے جو تختہ ء دار سے ڈرتے ہیں