• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں محصولات اور ان کی وصولی کے بندوبست میں قابل محصول آمدنی،ذرائع وسائل کے حامل ہر فرد سے ٹیکس کا حصول یقینی بنایا جاتا ہے۔پاکستان میں 24کروڑ کی آبادی میں صرف 50لاکھ لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں اور ان میں بھی بڑی تعداد ملازمت پیشہ افراد کی ہے۔وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کا عندیہ دیا ہے تاہم یہ اقدام آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط ہوگا۔آئی ایم ایف مشن مئی کے دوسرے ہفتے میں پاکستان آ رہا ہے جس میں بجٹ تجاویز پر تبادلہ خیال ہو گا۔تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال اب تک 370ارب روپے ٹیکس ادا کیا جو ٹیکسوں میں شراکت کے حوالے سے جائیداد اور برآمد کنندگان کے مقابلے میں سب سے اوپر ہے۔جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی رقم میں 50فیصد اضافہ کیا گیا تھا جو اب تک صرف 24.3فیصد کے ساتھ سامنے آیا ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس نوید قمر کی زیر صدارت ہوا جس میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے بریفنگ دی۔وزیر خزانہ اورنگزیب نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی جس میں مختلف ٹیکس امور کا جائزہ لیا گیا اور مختلف تجاویز سامنے آئیں۔اجلاس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ سرکاری وزارتیں اور محکمے کم از کم تنخواہ 37ہزار پر عمل نہیں کر رہے۔کمیٹی نے ایک کروڑ کی جائیداد کی خریداری پر ذرائع آمدنی بتانے کا بل مؤخر کر دیا اور پہلی بار جائیداد خریدنے والوں کو مستثنی قرار دے دیا۔ایسے افراد کی اہلیت کا تعین"کا فی وسائل"سے کیا جائے گا۔ہمارے محصولات کے نظام سے قلیل مدتی فائدے تو ظاہر ہو رہے ہیں تاہم طویل بنیادوں پر اس میں اصلاح کی ابھی کافی گنجائش ہے۔یہ نظام جتنا درست اور منصفانہ ہو گا اتنا ہی ملک کی ترقی کا ذریعہ بنے گا۔

تازہ ترین