• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاوید انور نے کہا تھاہم کہ ہیرو نہیں ولن بھی نہیں۔ہم عوام الناس ہیں ۔ ہم وہ خاموش تماشائی ہیں جو ہر سانحے کے بعد فقط آنکھوں میں نمی، زبان پر دعااور دل میں خوف لے کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ نہ کوئی تاج پہنتے ہیں، نہ کوئی زنجیر توڑتے ہیں۔ہم وہ بےچہرہ ہجوم ہیں جو ہر نعرے پر تالیاں تو بجاتے ہیں، مگر کبھی نعرہ بن نہیں پاتے۔ہم وقت کی ریت ہیں، جو ہر طوفان سے گزرتی ہے، مگر طوفان کہلاتی نہیں۔ہم وہ گواہ ہیں جو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں، پر ہمارے بیان کبھی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتے،ہم نہ نجات دہندہ ہیں نہ تباہ کن، ہم تو بس اپنی روٹی، اپنے بچےاور اپنے خوابوں کی ڈور تھامے زندگی سے نجات کی تلاش میں چلتے عوام ہیں۔ایسے میں نوشکی کی بے آواز بستی میں بھی ایک ایسا لمحہ اترا، گہری تاریک رات میں بجلی چمکی ۔ زندگی کااعلان ہوا۔کسی نے کہا ابھی بحیثیت قوم مردہ نہیں ۔ یہ آواز ایک بلوچی کی تھی،اس کے حوصلوں اور ارادوں نے ہماری اجتماعی بے حسی کو جھنجھوڑدیا۔وہ کون تھا ، اس کا کیا نام تھا ، کس ماں کا بیٹاکوئی نہیں جانتا۔سب اتنا جانتے ہیں وہ اس قوم کا فخر تھا۔ وہ تاریخ کے ماتھے پر ایک جھومر بن کر چمکتا رہے گا۔سو آج کا کا لم اسی گمنام ہیرو کے نام۔

بلوچستان کے شہر نوشکی میں، ایک آئل ٹینکر نے جب شعلوں کا لباس پہنا، تو منظر قیامت سے کم نہ تھا۔ لوگ چیخے، دوڑے، ویڈیو بنائیں، اور آگ کے قریب آنے سے کترائےمگر ایک شخص ایسا تھا جو آگ سے نظریں چرا کر پیچھے نہیں ہٹا، بلکہ اس کی آنکھوں میں جھانکا اور اسے چیلنج کر دیا۔اس نے جلتے ہوئے آئل ٹینکر کو آبادی سے دور لے جا کر ایک بڑےالمیے کو روک دیا۔ اسے اپنی جان کی پروا نہیں تھی، اسےشہر کے بچوں کی فکر تھی۔ شاید اسے ماں کے آنچل میں لپٹے کسی شیر خوار کی نیند عزیز تھی۔ وہ چلا، شعلوں سے لپٹا اور جب وہ ٹینکر شہر سے باہر لے جا کر رُکا، تو اس کے جسم پر زندگی کی سانس باقی نہ تھی مگر سینکڑوں زندگیاں اُس کے دم سے محفوظ ہو چکی تھیں۔

یہ داستان صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک سوال ہے۔کیا ہم اس قربانی کے قابل تھے؟ کیا ہمارے اندر اتنی اخلاقی روشنی باقی ہے کہ ہم اسے تسلیم کریں؟ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان ہیروز کو تب پہچانتے ہیں جب ان کے کتبے قبرستانوں میں اُگ آتے ہیں۔ اگر وہ نوجوان کسی سیاستدان کا بیٹا ہوتایا کسی مقتدر شخصیت کے گھر کا فردتو شاید اس وقت وہ خبروں کا محور ہوتا، ٹی وی چینلز پر اس کے بلیٹن چل رہے ہوتے ، مگر چونکہ وہ’’گمنام‘‘تھا، لہٰذا اب وہ صرف ایک ویڈیو کا سایہ ہے، ایک فقرہ ہے جو چند دنوں کے بعد فراموشی کے ملبے تلے دب جائے گا۔

نوشکی کے اس سانحے نے ہمیں ہماری ناکامی کا آئینہ دکھایا۔ نہ فائر بریگیڈ وقت پر پہنچی، نہ امدادی نظام فعال تھا، نہ ایمبولینسوں کی چیخ سنائی دی۔ صرف وہی سنائی دیا، جو ہم برسوں سے سن رہے ہیں: لاپروائی، نااہلی، اور خاموشی۔مگر وہ نوجوان خاموش نہیں تھا۔ اُس کی خاموشی میں وہ صدا تھی جو ہر بزدل کو للکارتی ہے۔ اُس نے ہمیں یاد دلایا کہ اصل ہیرو وہی ہوتا ہے جو خطرے میں دوسروں کے درد کو اپنا درد بنا لے، جو اپنی ذات کو مٹا کر بستی بچا لے، جو اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے دوسروں کی آنکھوں میں روشنی بھر دے۔ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کون تھا؟ اس کے گھر میں اب کون دیا روشن کرتا ہے؟ کیا اس کے اہل خانہ کو کوئی تسلی، کوئی سہارا، کوئی وعدہ ملا؟ یا وہ بھی باقیوں کی طرح حکومتی فائلوں کی گرد میں دفن ہو گیا؟

میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ صرف جلتے مناظر کی فوٹیج نہ دکھائے، بلکہ ان گمنام چراغوں کی تلاش میں نکلے، جو ہمارے سماج کی تاریکی میں ایک نقطۂ نور بنے ہوئے ہیں۔ وہ جو ہمیں بتاتے ہیں کہ زندگی صرف جینے کا نام نہیں، بلکہ کسی اور کیلئے مرنے کا ہنر بھی ہے۔نوشکی کا یہ بیٹاجس کا نام ہم آج نہیں جانتےکل تاریخ کی روح میں زندہ رہے گا، بشرطیکہ ہم اسے بھلانے کے جرم سے بچ سکیں۔ آج جب ہماری قوم اضطراب کی زمین پر کھڑی ہے، جب ہر طرف اندھیرے اور نااُمیدی کے بادل منڈلا رہے ہیں، تو ہمیں ایسے ہی ہیروز کی ضرورت ہے۔ وہ جو روشنی کے بیج بو سکیں۔ وہ جو آگ میں کود کر خوشبو بچا لیں۔

دیوار پر جو دستک ہوئی تھی، وہ خاموش نہیں تھی وہ ایک چیخ تھی جو ہم سے سوال کر رہی ہے:کیا ہم اب بھی اپنے ہیرو کو پہچاننے سے قاصر رہیں گے؟۔میں یہ نہیں سمجھتا مگر ہم نے اپنے ہیروز کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کیا۔ ڈاکٹر قدیر خان ہمارے سامنے ہیں ۔جنہیں ہم نےپوری دنیا کے سامنے رسوا کیا ۔اسی طرح ہمارا ایک ہیرو جیل میں ہے ۔

ہم وہ قوم ہیں جواپنے ہیرو دفناتے وقت انکے ساتھ ان کی قربانیوں کو بھی دفن کر دیتے ہیں۔یعنی ہم تاریخ کے قبرستان میں اپنا کتبہ خود لکھ رہے ہیں۔ہیرو تو قوم کی روح ہوتے ہیں، ان کی بےقدری روح کی توہین ہوتی ہے، اور روح کی توہین سے جسم زندہ نہیں رہتا۔وہ قومیں جو اپنی پہچان بنانے والوں کو فراموش کر دیں، وہ خود بےنام ہو جاتی ہیںنقش تو ہوتے ہیں، مگر پہچان مٹ چکی ہوتی ہے۔جو قومیں ہیروز کو صرف مرنے کے بعد یاد کرتی ہیں، وہ زندہ قومیں نہیں ہوتیںبس سانس لیتے ہجوم ہوتے ہیں۔ہیرو عزت مانگتے نہیں، عزت دیتے ہیں اور جو قومیں اس عطا کو نہ سمجھ سکیں، وہ پچھتاوے کے اندھیرے میں گم ہو جاتی ہیں۔ایسی قومیں جن کے ہیرو گمنام اور ولن مشہور ہوں، وہ تاریخ کے طاق پر نہیں، فراموشی کے اندھیرے میں لکھی جاتی ہیں۔ہیرو کی عزت صرف تمغے سے نہیں، دل سے ہوتی ہے۔ اور جن دلوں میں اپنے محسنوں کیلئے جگہ نہ ہو، وہاں صرف خوف رہتا ہے، فخر نہیں۔

تازہ ترین