• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹھائیس اپریل کو کینیڈا میں ہونیوالے قومی انتخابات میں رائے عامہ کے پیشگی جائزوں کے مطابق لبرل پارٹی مسلسل تیسری بار کامیابی سے ہمکنار ہوگئی ہے۔ گو اسطرح کے انتخابات مغربی ممالک کی جمہوریتوں میں معمول ہوتے ہیں اور اسطرح کسی سیاسی پارٹی کی ہار جیت طویل توجہ کی حامل نہیں ہوتی۔ لیکن اس دفعہ لبرل پارٹی کی کامیابی کی حیرت انگیزی کی وجہ یہ ہے کہ آج سے چار ماہ قبل یہ پارٹی کینیڈین عوام میں انتہائی نامقبولیت کا شکار تھی اور اسی وجہ سے پچھلے دس سال سے وزیراعظم رہنے والےجسٹن ٹروڈو کو پارٹی کی سربراہی سے علیحدہ ہوتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے بھی دستبردار ہونا پڑا تھا۔ آج سے چار ماہ قبل عوام میں سولہ فیصد مقبولیت رکھنے والی لبرل جماعت نے اٹھائیس اپریل کے انتخابات میں تینتالیس فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں کینیڈا کی سیاست کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر نظر ڈالیں تو یہ کرشمہ لبرل پارٹی کی قیادت کی قابلیت سے زیادہ نئےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ رویہ کا ردعمل دکھائی دیتا ہے جس نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک توہین آمیز انداز میں کینیڈا پر تنقید کرکے اسے امریکہ کی 51ریاست گردانتے ہوئے اسوقت کے وزیراعظم کو امریکی ریاست کا گورنر کہہ کر مخاطب کیا۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی کینیڈا سے آنے والی درآمدات پر خصوصی کسٹم عائد کرتے ہوئے واضح معاندانہ رویہ اپنایا جس پر دونوں ممالک کے مابین ایسی کشمکش کا آغاز ہوا جس سے دوممالک کے دوستانہ تعلقات یک لخت حریفانہ منظر کشی کرنے لگے۔نئے امریکی صدر ٹرمپ کے توہین اور دھمکی آمیز رویہ پر پوری دنیا ہی تو ششدر تھی لیکن کینیڈین عوام کیلئے یہ ایک ناقابل یقین عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بھیانک خواب کی صورت اختیار کر گیا اور یکایک پوری قوم ایک نئے خوف کا شکار ہو گئی۔ اور اسی خوف اور غیر مناسب امریکی رویے کے مد نظر کینیڈا کی سیاست نے بھی ایک نئی کروٹ لی اور اس نئی سیاسی ڈگر کا کریڈٹ سبکدوش ہونیوالے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے سر جاتا ہے جس نے امریکی صدر ٹرمپ کی دھونس کے آگے ڈٹنے کا بیانیہ اپنایا اور ہر سطح پر امریکہ کے مقابلہ کا عندیہ دیتے ہوئے کینیڈین عوام کی قومی حمیت کواُجاگر کرنے کا بیڑا اُٹھاتے ہوئے سیاست کے محور کو یکسر داخلی مسائل سے ہٹا کر خارجی خطرات سے جوڑ دیا۔ اور پختہ قیاس یہی ہے کہ اٹھائیس اپریل کو کینیڈین لبرل پارٹی کی فتح کی بنیاد یہی اینٹی ٹرمپ سیاسی حکمت عملی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کینیڈا ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ایسے بحرانوں کے دوران جب کوئی ملک بیرونی خطرے سے دوچار ہوتا ہے توعوام کی اکثریت داخلی مسائل سے صرف نظر کرتے قومی یکجہتی کی خاطر قربانی دینے کیلئے تیار ہوجاتی ہے۔اگر ہم ترقی یافتہ ممالک میں قائم جمہوری روایات اور نظام کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر انتخابات کا فیصلہ داخلی مسائل کرتے ہیں اور بہت کم عالمی حالات عوام کی سیاسی ترجیحات کا پیمانہ بنتے ہیں۔ لیکن جس انداز میں نئی امریکی انتظامیہ نے جارحانہ خارجہ پالیسی کا آغاز کیا ہے اس سے پورا عالمی نظام عدم تحفظ کا شکار ہے اور کینیڈا جیسے ہمسایہ ملک کے عوام نے نئی امریکی انتظامیہ کی دھمکیوں کے پیش نظر اپنے داخلی معاشی اور سماجی مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ماضی کی روایات کے بر عکس مہنگائی صحت اور تعلیم جیسے مسائل سے قطع نظر کرتے ہوئے حکومت کے خارجی محاذ پر اپنائے جراتمندانہ موقف کی بنیاد پر اپنے حق رائے دہی کا حقدار لبرل پارٹی کو قرار دیا۔اگر موجودہ کینیڈین انتخابات کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لبرل پارٹی کی حکومت کے لیےصدر ٹرمپ کے دھونس اور دھمکی کے مقابل ڈٹ جانے کا سیاسی بیانیہ الیکشن میں انتہائی سود مند ثابت ہوا ہے۔ اگر ہم ان انتخابات سے قطع نظر تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات عیاںہوتی ہے کہ کوئی بھی ملک یا قوم کتنی ہی منتشر یا داخلی فرسودگی کا شکار کیوں نہ ہو ،اسکابیرونی خوف کےحاوی ہو جانے پر اپنے داخلی اختلافات کو بھول کر حکومت وقت کے گرد جمع ہونا ایک فطری عمل ہے ۔ کینیڈا کے انتخابی نتائج یہی اشارہ کر رہے ہیں۔لبرل پارٹی کی نئی قیادت کی طرف سے انتخابات کے دوران صدر ٹرمپ کو للکار نا اور کینیڈین عوام میں قومی حمیت کا اُبھارنا انکی سیاسی حکمت عملی کی کامیابی دکھائی دے رہا ہے اور اس طرح آج سے چار ماہ قبل اپنی مقبولیت کی پست ترین صورتحال سے دوچار لبرل پارٹی کے لڑکھڑاتےجسم میں ٹرمپ کی دھمکیوں نے نئی روح پھونک کرعنان اقتدار پر براجمان رکھاہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ باشعور سیاسی معاشرے اپنے قومی اور انفرادی مفادات کے امتیاز کا جو ادراک رکھتے ہیں اُسکا مظاہرہ بحرانوں کے دوران ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور جس سے کسی قوم کی باہمی یکجہتی اور اتحاد منظر عام پر آتا ہے۔ کینیڈا کے عوام کیلئے ان انتخابات میں اپنی رائے دہی کے ذریعے اپنے داخلی معاملات سے زیادہ نئی امریکی انتظامیہ کے جارحانہ رویہ پر ردعمل دکھاتے ہوئے اپنی خودمختاری کے عزم کا اظہار مقصود تھا گو اس کا سیاسی فائدہ حکومت وقت کی سیاسی جماعت لبرل پارٹی کو ہوا۔

تازہ ترین