السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بے یارو مددگار بزرگ افراد
گزارش یہ ہے کہ میرے خط اور مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جائے۔ یہ اس مُلک کے کئی عُمر رسیدہ، بزرگ افراد کا رونا ہے کہ وہ اپنی آخری عُمر میں تنہائی اور سخت بے چارگی کا شکار ہوجاتے ہیں، مَیں بھی ایسا ہی ایک لاغر بوڑھا ہوں، جس کی زیادہ تر راتیں سڑکوں، چوراہوں، فٹ پاتھوں پر بسر ہو رہی ہیں۔ اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو اس موضوع پرکچھ کام کروائیں، اربابِ اختیار کا دَر کھٹکٹائیں کہ ہم بےیارومددگار بوڑھوں کے لیے بھی کوئی سبیل نکالیں۔ (محمد اسلم، ساکن محلہ اسلام والہ، داؤد والہ کھوہ، مدنی روڈ، گوجرانوالہ)
ج: اگر تو آپ صاحبِ اولاد ہیں، تو آپ کی اولاد کو شرم آنی چاہیے۔ اِس کےسوا ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ اِس موضوع پر پہلے بھی کام کروا چُکے ہیں، پھر کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
نئے شعراء کا کلام
ہم آپ پر الزام نہیں لگارہے، یہی کہا تھا کہ آپ نئے شعراء کا کلام شائع نہیں کرتیں۔ اپنے والد صاحب کی نعتیں اور اپنے فردیات، جو اگست 24ء میں آپ کو ارسال کیے تھے، مَیں نے نواب شاہ کے ایک شاعر کو باقاعدہ چیک کروائے تھے اور اُنہوں نے اُنھیں سو فی صد درست قرار دیا تھا۔ آپ کو نہیں پسند آئے، چلوخیر۔ اب والد صاحب کی ایک غزل بھیج رہا ہوں۔ اُمید ہے، صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں جگہ دے دیں گی۔ اور ہاں ہم ٹوبہ ٹیک سنگھ (پنجاب) کے رہائشی ہیں، نواب شاہ کے نہیں۔ (طاہر گرامی، ٹوبہ ٹیک سنگھ)
ج: آپ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے نواب شاہ اگر اپنا یہ شاہ کار کلام چیک کروانے ہی گئے تھے، تو پھر تو سمجھیں، سفر رائیگاں ہی گیا۔ اور آپ کا اور آپ کے والد صاحب کا کلام ہم نے نہیں، ایک مستند شاعر، اختر سعیدی صاحب نے مسترد کیا تھا۔ اوراُن کا کہنا ہے کہ آپ اور آپ کے والد صاحب تو کیا، جن سے آپ، اپنے کلام کی درستی کی سند حاصل کررہے ہیں، وہ بھی شاعر نہیں ہیں۔ ہم نئے شعراء کا کلام ضرور شایع کرتے ہیں، بشرطیکہ وہ کلام ہو، محض تُک بندی نہیں۔
سب سے زیادہ محنت
تازہ سنڈے میگزین کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا اپنے مدلل تجزیاتی مضمون کے ساتھ موجود تھے، پڑھ کر بہت اچھا لگا، بلکہ سچ کہوں، تو اِس بار یہی مضمون سب سے اچھا لگا۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں ابنِ نصر ناصر نے چولستان کے قلعہ دراوڑ سے متعلق اچھی معلومات فراہم کیں۔ ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید کا مضمون بھی مناسب تھا۔ اِس بار بھی ’’ناقابل اشاعت کی فہرست‘ طویل تھی، لگتا ہے، سب سے زیادہ محنت اِسی پر کی جا رہی ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: سب سے زیادہ تو نہیں، البتہ خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ پوری تحریر اِس آس پہ پڑھو کہ شاید کوئی کام کی بات نکل آئے، میرٹ پر پوری نہ اُترے، تو مسترد کرو اور پھر باقاعدہ فہرست بھی ترتیب دو۔ محنت تو لگتی ہے بھئی۔
وہ کام، آج بیٹی کرتی ہے
جب مَیں کالج میں پڑھتی تھی، تو اتوار والے دن پہلا کام ’’سنڈے میگزین‘‘ کا مطالعہ ہوتا تھا۔ جب تک پڑھ نہ لیتی، سُکون نہیں ملتا تھا۔ آج یہ کام میری بیٹی ایمن کرتی ہے۔ جب یہ میگزین اُس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، تولگتا ہے، جیسے اُس کے کانوں میں کوئی آواز ہی نہیں آرہی۔ ناقابلِ فراموش اور ڈائجسٹ کے صفحات اس کے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ پہلے خود پڑھ لیتی ہے، پھر مجھے بھی سُناتی ہے اور یہ صفحات شاملِ اشاعت نہ ہوں، تو شکوہ بھی کرتی ہے۔ (ثناء شاہد، لاہور)
ج: واہ بھئی! یہ تو آپ نے کمال ہی کر دیا، آج کی نسل میں اخباربینی کی عادت ڈالنا تو جوئے شِیر لانے کےمترادف ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کی اپنی اولاد اِس ضمن میں باغی ہو چُکی ہے، تو آپ نے تو پھر تاریخ ہی رقم کر دی۔
آسان امر نہیں!!
خطوط نگاروں کے بھیجے گئے خطوط، اُن کی چھانٹی، سخت ایڈیٹنگ اور پھر کرارے جوابات آسان امر نہیں۔ اِس کے باوجود، کئی لوگ ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر سخت تنقید کرتے نظر آتے ہیں، تو دُکھ ہوتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ خوب ہدایت و رہنمائی فراہم کررہا ہے۔ اور ایسے میں، جب کہ ہر طرف ’’ہوسِ زر‘‘ کی ایک دوڑ سی لگی ہے، خصوصاً سیاست دان، سرکاری افسران، تاجر برادری اگر صرف سچ ہی بولنا شروع کردے، تو مُلکی حالات میں بہت حد تک سدھار آسکتا ہے۔
ویسے تو ہمارےمُلک اور سماج میں اَن گنت مسائل ہیں، لیکن اِن ناجائز منافع خوروں کو تو سخت سزائیں ملنی چاہئیں۔ اسرائیل کی بدمعاشی، ظلم و زیادتی کے حوالے سے منیر احمد خلیلی کی تحریر لاجواب تھی۔ ایم شمیم نوید اسٹریٹ کرائمز پر نوحہ کُناں تھے، تو سب خطوط نگاروں نے بھی خُوب ہی محفل جمائی۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، مظفّرگڑھ)
ج: جی بالکل، ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے لےکر پورے جریدے کی تیاری تک گویا ؎ اِک آگ کا دریا ہے، اور ڈوب کے جانا ہے۔ لیکن کیا ایک سطر چھوڑ کر خط لکھنا، بھی کچھ ایسا کارِ محال ہے کہ ہماری لاکھ التجاؤں پر بھی آپ کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی۔
اہم حقائق بےنقاب
سب سے پہلے ’’حالات و واقعات‘‘ کا ذکر ہو جائے، منور مرزا کے بےلاگ تبصرے کے کیا ہی کہنے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی نے کئی اہم حقائق سے پردہ اُٹھایا۔ فرّخ شہزاد ملک گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو مُلکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کر رہےتھے۔ محمد ارسلان فیاض نے بلوچستان کمیشن برائے خواتین کی چیئر پرسن، فوزیہ شاہین سے اچھی بات چیت کی۔ ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، اُن کی زبانی کیا ہی لُطف دے رہی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مضامین معلوماتی، متعدد موضوعات کا احاطہ کر رہے تھے۔ ہادیہ عبدالمالک کا ’’کانٹے‘‘ کے عنوان سے افسانہ بہت پسند آیا۔
محمّد کاشف نے روایتی کرنسی اور کرپٹو کرنسی کا فرق عُمدگی سے بیان کیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا خط تو شامل نہیں تھا، ہاں خادم ملک کا خط ضرور جگمگا رہا تھا۔ اگلے جریدے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں لیاقت بلوچ نے ماہِ صیام سے متعلق بہت ہی عُمدہ نگارش نذرِ قارئین کی۔ منیر احمد خلیلی نے اسرائیلی ریاست کے قیام سے متعلق کچھ مزید تلخ حقائق بیان کیے، مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بھارت، امریکا کی بڑھتی قربتوں کا جائزہ لے رہے تھے۔
’’ہیلتھ اینڈ فٹنیس‘‘ میں ڈاکٹر شکیل احمد نے ذیابطیس سے متعلق سیر حاصل مضمون تحریر کیا۔ عاطف شیرازی کی وزیرِاعظم آزاد کشمیر سے خصوصی بات چیت پسند آئی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ہم سایوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا، بہترین مضمون تھا۔ فرحی نعیم بھی اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دے رہی تھیں۔ ملک ذیشان عباس نے ’’جولیاں‘‘ کی سیاحت کروائی، معلوماتی تحریر تھی۔
’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘، ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحات بہت پسند آئے اور ’’رپورٹ‘‘ میں وحید زہیر نے سدا بہار گانوں کے ایک دیوانے سے اچھی ملاقات کروائی۔ اور اب آتے ہیں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، ہمارا خط شامل کرنے کا شکریہ، جب کہ آپ نے خادم ملک کو خط کا جواب دیتے جو شعر تحریر کیا، وہ بھی پسند آیا۔ ایمن علی منصور کو جو جواب دیا گیا، وہ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ پرنس افضل شاہین نے خادم ملک کو ’’سر درد ملک‘‘ کا نام دیا، تو یہ اچھی بات نہیں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: اور آپ جو اُنھیں ہر درد کا درماں سمجھے بیٹھے ہیں، تو کیا یہ بہت اچھی بات ہے۔
پالیسی، آسمانی صحیفہ نہیں!!
زاہد علی شاہ کے خطوط واقعی لاجواب ہوتے ہیں۔ اور اُن کے خطوط پرآپ کی تلملاہٹ سونے پرسہاگا ہے۔ ’’سنڈےمیگزین‘‘ میں آپ اپنا انٹرویو لازماً شائع کریں۔ آپ فرماتی ہیں کہ ادارے کے کارکنان کے انٹرویوز کی اشاعت ادارے کی پالیسی کے خلاف ہے، تو پالیسی تبدیل کردیں۔ یہ پالیسی کوئی آسمانی صحیفہ تو نہیں۔ جمہوریت کا دَور ہے، عوام کی اکثریت آپ کا نٹرویو پڑھنا چاہتی ہے۔ آپ اس حوالے سے بے شک، ریفرنڈم کروا لیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: پالیسی آسمانی صحیفہ ہے یا زمینی، ہم بہرحال اُس پرعمل درآمد کے پابند ہیں۔ اور یوں بھی زندگی کچھ اصول و ضوابط کی پابند ہونی ہی چاہیے۔ یہ کیا کہ مرکھنے بیل کی طرح جدھر، جیسے سینگ سمائیں، منہ اٹھا کے چل دیں۔ ہر ایک کو ٹکریں مارتے پھریں۔ اورہاں، کم از کم اپنے ’’عاشقِ صادق‘‘ کا نام ہی ٹھیک سے یاد کرلیتے، اُن کا نام زاہد علی شاہ نہیں ’’سیّد زاہد علی‘‘ ہے۔ ’’شاہ‘‘ تو اُن کے رہائشی علاقے شاہ فیصل کالونی کا حصّہ ہے۔
نام کے مخفّف سے غلط فہمی
ہم اس سے پہلے بھی ایم۔ بی تبسم کے نام سے انیٹری دے چُکے ہیں۔ جو کچھ ہم نے آپ کو بھیجا، آپ نے میگزین میں شائع کیا، بہت بہت شکریہ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ نام کا مخفّف لکھنے سے بعض اوقات غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ لکھاری مذکر ہے یا مؤنث ہے۔ تبصرہ کرنے والے، لکھاری کو صاحب یا صاحبہ سمجھتے ہیں۔ میرے مضمون ’’پارس سے فارس‘‘ سے متعلق لکھے گئے خطوط میں یہی دیکھنے میں آیا۔ ہم کافی عرصے سے ’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھتے چلے آرہے ہیں۔
اس میں جو کچھ لکھا ہوا پایا، معلومات سے بھرپور ہی پایا۔ مکمل تبصرہ کرنا شروع کریں، تو خط بہت طویل ہوجائے گا، لہٰذا تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھیں۔ صرف سنڈے میگزین ہی نہیں، لگ بھگ تمام جرائد کا وتیرہ ہے کہ دوپٹے سے بےنیاز ایک سجی سجائی لڑکی یا عورت میگزین کے سرِورق کی زینت بنا دی جاتی ہے۔ گویا ایک بھیڑچال ہے۔ کیا عورت کو ایک ڈیکوریشن پیس کی طرح پیش کرنا بہت ضروری ہے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اِن کی بجائے معاشرے کے نام وَر، باصلاحیت مرد و خواتین کو اہمیت دی جائے تاکہ اس کے معاشرے پر کچھ مثبت اثرات بھی مرتّب ہوں۔ ویسے سنڈے میگزین میں دینی معلومات، حالاتِ حاضرہ پر مشتمل مضامین، انٹرویوز، سفرنامے، ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اور ’’پیارا گھر‘‘ جیسے تمام سلسلے بہت اچھے ہیں۔ آپ کے ’’ہائیڈ پارک‘‘ میں بھی دل چسپ سوال و جواب ہوتے ہیں۔ دُعا ہے کہ میگزین جلد صحت یاب ہوجائے، مطلب یہ کہ صفحات میں اضافہ ہوجائے۔ آمین! (ایم۔ بانو، طارق روڈ، کراچی)
ج: ہمارا خیال ہے، مذکر و مونث سے متعلق تو ہماری اور قارئین کی غلط فہمی ہنوز برقرار ہے۔ ایسے بےضرر سے خطوط کے ساتھ اصل اور پورا نام نہ لکھنے کے پیچھے کیا حکمت ہے، کم ازکم ہماری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔
فی امان اللہ
فروری کا آخری شمارہ سبز لباس میں ملبوس ماڈل کے ساتھ ملا۔ سبز رنگ ہمیشہ ہی فیورٹ رہا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ استقبالِ رمضان کے حوالے سے تھا۔ اللہ ہمیں اِن مقدّس ایام میں عبادات و معاملات کو بہتر بنانے کی توفیق دے۔ ویسے ہم عبادات تو کرتے ہی ہیں، ہاں معاملات کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ منیر احمد خلیلی اسرائیلی، فلسطینی تاریخ پرمسلسل لکھ رہے ہیں۔ اور بُہت اہم معلومات فراہم کررہے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل احمد کا موضوع ذیابطیس اور رمضان المبارک تھا۔ مجھے 8 سال سے شوگر ہے اور بلاشبہ ان آٹھ سالوں میں رمضان المبارک میں طبیعت عام دِنوں کی نسبت بہت بہتر رہتی ہے۔ میرے خیال میں تو روزہ شوگر کے مریض کے لیے ایک بہترین دوا ہے۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم کی تحریر’’ہم سایہ، ماں جایا‘‘ اچھی تھی۔ وہ ظفر زیدی نے کیا خُوب کہا ہے کہ ؎ اِک شجر ایسا محبّت کا لگایاجائے… جس کا ہم سائے کےآنگن میں بھی سایہ جائے۔ حالاں کہ ہمارا تجربہ اِس سے یک سرمختلف ہے۔
ہمیں جو ہم سائے ملے ہیں، بدقسمتی سے رشتے دار بھی ہیں اور رشتے دار بھی ایسے کہ اگرآپ چاہتے ہیں، آپ کے رشتے دار خوش رہیں، تو پھر آپ پریشان رہا کریں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘ کی دو باتیں بہت اچھی لگیں۔ پہلی یہ کہ’’لگی بندھی زندگی گزارنے والے اِس کارگاہِ ہستی کی دل کشیوں، رنگینیوں اور دل فریبیوں سے محروم رہتے ہیں۔‘‘اور’’گھاٹ گھاٹ کا پانی یعنی سیر وسیاحت وسعتِ قلب وذہن عطا کرتا ہے۔‘‘ واقعی پوشاکیں بدلنے سے کہیں بہتر جگہیں بدلنا ہے۔’’خُود نوشت‘‘ میں جوسز، میٹھی لسّی، ڈرائی فروٹس، چکن سینڈوچز، باداموں والی کھجوریں، چیمہ صاحب کا انداز اور ائیرہوسٹس کی میزبانی سب بہت مزے دار لگے۔
شیخوپورہ کےڈگری کالج گراؤنڈ میں ہیلی کاپٹر اُترتے وقت تیز ہوا سے پولیس اہل کاروں کی ٹوپیاں اُڑنے کا منظر تو جیسے نظروں کےسامنے آتا رہا۔ اُنہیں وادیٔ لیپا میں علی الصباح ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے سے جو لُطف آیا، وہ ہمیں بھی پڑھتے ہوئے محسوس ہوا۔ ’’جولیاں‘‘ کی قدیم خانقاہ پر ملک ذیشان عباس کی مختصر تحریر پڑھنےکو ملی، اگر تفصیلاً ہوتی، تو زیادہ اچھا لگتا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سید محسن علی کی کہانی ’’بجٹ‘‘ گویا منہگائی میں جکڑے ہر پاکستانی کی کہانی تھی۔
یسریٰ رضوان کے برقی خط کے جواب میں آپ نے لکھا کہ ’’اسلام آباد بیاہی گئی ہیں، تو اب یہ تو ممکن نہیں کہ 50روپے کا اخبار خریدنے کی بھی سکت نہ ہو۔‘‘ تواصل مسئلہ قوتِ خرید کا نہیں، ترجیحات کا ہے۔ اب ترجیحات میں اخبار، رسالہ کہاں رہے۔ سعید احمد انور چشتی کتابوں پر تبصرے کے صفحے پر ناشرین وغیرہ کے مکمل پتے شائع نہ ہونے کا گِلہ کررہے تھے۔ چلیں، آپ نے اُن کا تو مکمل پتا شائع کردیا۔ اب ناشرین خُود ان سے رابطہ کرلیں گے۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
ج : بجا فرمایا۔ اصل مسئلہ قوتِ خرید کا نہیں، ترجیحات کا ہے۔ ہم آپ کے موقف سے سو فی صد اتفاق کرتے ہیں ۔
* ذوالفقار احمد چیمہ کی سوانح عُمری کی تازہ قسط پڑھی۔ پڑھتی جاتی تھی اور بس اپنے بچپن کی یادوں میں کھوتی جاتی تھی۔ بھئی، بہت ہی شان دار! اندازِ تحریر کی تو کیا ہی بات ہے۔ اس بار’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل بھی بہت پیاری سی تھی۔ اور پھر آپ کی منتخب کردہ نظم ’’مَیں خود کو نہ جانے کہاں بھول آئی…‘‘پڑھ کے تو مَیں جیسے اپنا آپ ہی بھول گئی۔ بار بار، کئی بار پڑھی اورآنکھیں نم ہوتی رہیں۔ ہاں یاد آیا، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک خط نگار تھے، جو آپ کو ’’میڈم میڈم‘‘ کرتے نہ تھکتے تھے (شاید حسن شیرازی نام تھا) وہ بھی تو ایک عرصے سے غائب ہیں۔
ویسے پچھلے ہفتے سے دل کی کچھ ایسی کیفیت ہے کہ ؎ زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے… جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں۔ کوئی ایسا دوست، غم خوار بھی نہیں، جس سے دل کی بات کرسکوں۔ خیر، شمارے میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ پہ اپنی ای میل دیکھی، تو دل خوش ہوگیا۔ ’’وقت کے گم نام غالب‘‘ کا خط پڑھ کے مَیں نے بھی اُن کی خُود اعتمادی کوسلامی دی۔
’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل تھوڑی فربہی مائل تھی، لیکن دیکھ کے اچھا لگا کہ اب نارمل فِگر کی لڑکیوں کو بھی موقع مل رہا ہے، وگرنہ تو ایک ماڈل کا تصوّر ہی سلم، فِٹ لڑکی کا بن کے رہ گیا ہے۔ اگلا شمارہ تو ایک ساتھ ہی پورا پڑھ ڈالا۔ سب سے پہلے چیمہ صاحب کی سوانح عُمری پڑھی۔ ’’عام آدمی‘‘ ایک فکر انگیز تحریر تھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ ’’فرضِ عین‘‘ پڑھ کےامّی کی باتیں یاد آگئیں۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم میں کچھ عرصے سے بہت سادہ ڈریسز آرہے ہیں۔ برائیڈل/ پارٹی وئیرز پر بھی شوٹ کروائیں۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: قرات! آپ کی اتنی ای میلز جمع ہوگئی ہیں کہ اب دو دو، تین تین ایک ساتھ لگائیں گے، تب ہی نمٹا پائیں گے یا پھر آپ خُود ہی ایک ہفتے کا بریک دے کر لکھیں تاکہ دیگر قارئین کو شکایت نہ ہو۔
* منور مرزا نےاپنے تجزیےمیں ایک اہم حقیقت کی طرف توجّہ مبذول کروائی۔ یہ سچ ہے کہ آج کی دنیا میں مسلّح گروہوں، جماعتوں کو بُرا سمجھا جاتا ہے۔پاکستان خُودایک طویل عرصے سے بلوچ عسکریت پسندوں سے نبرد آزما ہے۔ اِسی طرح ترکیہ بھی آئے دن کُرد علیحدگی پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز کرتا رہتا ہے۔ (محمّد کاشف، کراچی)
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk