لفظ معاشرہ بہت پرانا قدیم لفظ ہے ۔ آپ نے لفظ معاشرہ سن رکھا ہے جب تک ہم زندہ ہیں لفظ معاشرہ سنتے رہیں گے۔ہمارے مرجانے کے بعد لفظ معاشرہ فنا نہیں ہوتا ہماری جگہ کوئی اور اشخاص یا ایک شخص لے لیتا ہے ۔ کسی کے جانے اور کسی کے آنے سے معاشرے کی کارکردگی میں نمایاں فرق دکھائی نہیں دیتا۔
سننے میں معاشرہ ایک منجمد سخت اور اپنی ذات میں مکمل اکائی دکھتا ہے مگر ایسا نہیں ہے معاشرہ مجمع ہے انیک عناصر کا ، ہر عنصر ہر لحاظ سے ایک مکمل اکائی ہوتا ہے اس کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے اس تاریخ میں اپنی کتھائیں ، اپنے قصے، اپنی کہانیاں ہوتی ہیں مثلاً معاشرے کے عناصر میں ایک عنصر ٹرانسپورٹیشن کہلاتاہے ٹرانسپورٹیشن میں مواصلات کے حوالے سے بہت کچھ ہونے کے علاوہ سائیکلوں،موٹر سائیکلوں،رکشے، ٹیکسوں، بسوں، لاریوں، ٹرکوں ، ٹینکروں، ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں ،پانی کے جہازوں اور کشتیوں کا ذکرخیر بھرا ہوا ہوتا ہے ،آپ کو گاڑی چلاتے ہوئے کیا کرنا ہے اور کیا نہ کرنے پر عمل کرنا ہوتا ہے ،مگر ہمارے یہاں سب کچھ الٹ ہوتا ہے،آپ اطمینان سے گاڑی چلاتے ہوئے ون وے روڈ سے گزررہے ہوں تب اچانک نکڑ سے چکر کاٹ کر ایک بھیانک ٹرک آپ کو اپنی طرف آتا دکھائی دیتا ہے آپ کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں اس سے پہلے کہ آپ سنبھل پاتے آپ اللہ سائیںکو پیارے ہوجاتے ہیں ۔ہمارے لئے یہ روزمرہ کا کھیل ہے ہم دل و جان سے قاعدے ، قوانین ، احکامات توڑتے اور ملیا میٹ کرتے رہتے ہیں۔ مرنے کھپنے والے مرکھپ جاتے ہیں ،لولے لنگڑے ہوجانے والے لولے لنگڑے ہوجاتے ہیں ،سر پر چوٹیں کھاتے کھاتے لوگ پاگل ہوجاتے ہیں وہ ساس کو اپنی بیوی اور بیوی کو پڑوسن سمجھنے لگتے ہیں ،وہ جون ، جولائی میں آسمان سے اولے پڑنے کی پیشگوئی سنادیتے ہیں ۔مقدس کتابوں پر قسم کھاکر چار لوگ چشم دید گواہ بن جاتے ہیں اور ایک شخص کو پھانسی گھاٹ میں دم توڑنے پر مجبورکردیتے ہیں ،پچاس برس گزرنے کے بعد پتا چلتا ہے جی پھانسی گھاٹ میں لٹک کر جان دینے والا شخص گوتم بدھ کا پیروکار تھا اس نے زندگی میں ایک چیونٹی کو بھی موت کے گھاٹ نہیں اتاراتھا۔
ایسے مضحکہ خیز انکشافات کے بعد آٹھ دس ریکٹر اسکیل پر زلزلے نہیں آتے ،آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں آناً فاناً ملبے کا ڈھیر نہیں بن جاتیں ۔سونامی سے سمندر بے قابو ہوکر معاشرے کو تنکوں کی طرح بہا کر نہیں لے جاتا فلک پوش پہاڑ اپنی جگہ سے ہل نہیں جاتے مقدس کتابوں پر چشم دید گواہ، گواہی دینے کے بعد بہت پہلے مرکھپ چکے ہوتے ہیں جج صاحبان اپنا تاریخی فیصلہ سنانے کے بعد بہت پہلے طبعی موت مرچکے ہوتے ہیں پھانسی کے پھندےپر لٹک کر دم دینے والا شخص پھر سے زندہ ہوکر معاشرے میں لوٹ کرنہیں آتا، کچھ نہیں ہوتا، قطعی طور پر کچھ نہیں ہوتا معاشرہ پنپتا رہتا ہے کرائے کے قاتلوں کو پالنے والا بغیر کسی ثبوت کے لوگوں کو جب چاہے اس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف بھیجتا رہتا ہے اور من مانی سے زندگی گزارتارہتا ہے۔ معاشرے میں جس منصب پر چاہے وہ براجمان ہوتا رہتا ہے۔ دنیا بھر سے مانے ہوئے کھوجیوں اور جاسوسوں کو لے آئیں وہ قاتلوں کو پالنے پوسنے والے کے خلاف تنکے کے برابر ثبوت تلاش نہیں کرسکتے کرائے کے قاتلوں کو پالنے والا آپ کو ہمیشہ سرخرو اور دانت نکال کر مسکراتے ہوئے نظر آئے گا ایسا ہے ہمارا معاشرہ۔
مجھے اپنی اصلیت کے بارےمیں کسی سے کچھ چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی میں پیدائشی طور پر (By birth)برٹش انڈین ہوں پاکستان بننے سے کئی برس پہلے جب میں پیدا ہوا تھا تب برصغیر پر یعنی ہندوستان پر انگریز کا راج تھا اس لحاظ سے انگریز کے دور حکومت میں جنم لینے والے ہم لوگ پیدائشی طور پر برٹش انڈین کہلوانے میں آتے تھے ، ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح برٹش انڈین تھے ، کرم چند گاندھی برٹش انڈین تھے جواہر لال نہرو برٹش انڈین تھے لیاقت علی خان برٹش انڈین تھے ایسے ناموں سے برصغیر کی تاریخ بھری ہوئی ہوتی ہے۔ تب اہم یہ نہیں ہوتا تھا کہ آ پ لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے یا کہ لاہور میں پیدا ہوئے تھے ، اہم یہ تھا کہ آپ برٹش انڈین تھے ۔
برٹش انڈیا کے دور کی کچھ باتیں مجھے یادنہیں،دنیا بھر کے انسانوں کو قیامت تک یاد رہ جانے والی یادوں کے دلخراش قصے اورکہانیوں کے انبار تاریخ کے اوراق میں خون سے لت پت پڑھنے کو ملے تھے ۔ ذکر ہورہا ہے دوسری جنگ عظیم کا لگاتار پانچ برس دنیانے جیتی جاگتی قیامت کو جھیلا انیس سو انتالیس سے انیس سو پینتالیس کے درمیان برپا ہونے والی قیامت اور اس دوران بنگال میں زندگی کو مکمل طور پر بے معنی بنانے والادوسال نازل ہونے والا قحط اور قحط سالی ، انیس سو چالیس اور انیس سو بیالیس کا ہیبت ناک دور ، بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجانے والی موت کا آپ تصور نہیں کرسکتے تب سنا تھا کہ برصغیر ایک حصہ زمین اور تین حصہ پانی ہے تب پانی کہاں غائب ہوگیا تھا ؟ اب کے سنا ہے کہ برصغیر کا پانی غائب ہونے کو ہے!۔