• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یونیورسٹی آف بین الملی امام رضاعلیہ الرحمت ایران کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم کا مجھ سے یہ سوال بہت جاندار اور عہد حاضر کے امور کو سمجھنے کی غرض سے بر وقت تھا کہ جب تمام مسلمان ممالک کے عوام کم از کم اسرائیل سے ناراض ہیں اور کچھ ممالک تو فوجی خطرہ بھی محسوس کرتے ہیں تو پھر مسلم ممالک اسرائیلی جارحیت کے آگے بند باندھنے کیلئے مشترکہ طور پر پھاوڑے، کلہاڑے کیوں نہیں اٹھا لیتے؟ میں اس یونیورسٹی کی دعوت پر انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ کو مسلم ممالک کے باہمی خارجہ امور پر لیکچر دینے کیلئے مدعو تھا۔ اسرائیل گزشتہ صدی سے مسلم ممالک، عرب ممالک کیلئے مستقل طور پر ایک درد سر بنا ہوا ہے اور حالیہ دور میں تو وہ نہتے عوام کے حوالے سے ہلاکو خان کی تاریخ کو دہرانے میں مصروف ہے۔ پھر یہ سوال تو پیداہوتا ہے کہ مسلمان ممالک اتنے بے دست و پا کیوں ہیں اور انکی حکمت عملی اتنی بے عملی پر مشتمل کیوں ہے؟ طلبہ کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنی گزارشات عرض کی کہ ہمیں اس معاملے کو سمجھنا چاہئے کہ گزشتہ صدی میں در حقیقت یہ تمام مسلمان ممالک یا تو نو آبادیاتی دور کے شکنجے سے آزاد ہوئے یا سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرکےبڑی طاقتوں نے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ان کو وجود بخشا۔ اب اس صورت حال میں دو طرح کے مسلمان ممالک ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ اول تو وہ کہ جنہوں نے سیاسی یا مسلح جدو جہد کے ذریعے آزادی کو ممکن بنایا اور دوسرے وہ ممالک کہ جن کو سلطنت عثمانیہ کے بعد آزاد ممالک بنا دیا گیا۔ اب جن ممالک کو سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کی وجہ سے آزادی ملی ، ان کو یہ آزادی کسی خدا ترسی میں نہیں دی گئی تھی بلکہ اس کے ذریعے عرب دنیا کو بالخصوص اور تمام مسلمان ممالک کو بالعموم کنٹرول کرنے کا جذبہ شامل تھا اور اگر ہم غور کریں تو اس کنٹرول کرنے کے مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے اس زمانے میں ہی اسرائیل کو بھی قائم کروا دیا گیا۔ اب جن ممالک کی آزادی ہی اس گریٹ گیم کی محتاج ہو تو ان کیلئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس گیم سے باہر جا کر کوئی قدم اٹھا سکیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں کی موجودہ قیادت اس صورت حال کو سمجھتی نہیں بلکہ جب عرب سفارت کاروں سے ملاقات ہوتی ہے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنا چاہتے ہیں مگر کوئی راستہ ان کو سجھائی نہیں دے رہا۔ اب اگلا سوال یہ تھا کہ اس صورت حال کا مداوا کیا ہے۔ کسی کشمکش سے محفوظ رہتے ہوئے ان تنظیموں کو مزید فعال کرنا چاہئے جو مسلمان ممالک پہلے سے قائم کر چکے ہیں ۔ میں نے مزید عرض کی کہ اس سلسلے میں ڈی ایٹ تنظیم کو مزید

فعال کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں فوری طور پر سعودی عرب کو شامل کرنا چاہئے اور اس تنظیم کی حیثیت صرف اقتصادی معاملات تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ اس کو اپنا سیاسی کردار بھی ادا کرنا چاہئے۔ میں او آئی سی کی اس لئے بات نہیں کر رہا کہ وہ اتنے طویل عرصے سے قائم ہونے کے باوجود کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے اور اسی سبب سے مسلم عوام کے ذہنوں میں اس کا تصور ایک کمزور تنظیم کے طور پر راسخ ہو چکا ہے اور اب اس تصور کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہے۔ پروفیسر داؤدی نے پاکستان ایران کے تعلقات کی نوعیت پر سوال کیا تو عرض کی کہ تعلقات تو ٹھیک ہیں مگر یہ ٹھیک تعلقات ہمسائیگی کی نسبت سے ہیں اور دونوں ممالک کے اسٹیکس ایک دوسرے میں ہم قائم نہیں کر سکے ہیں۔ اب مزید بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے کہ دونوں ممالک کے فوجی افسران کی تعیناتیاں ایک دوسرے کے ہاں ہوئی ہیں۔ دہشت گردوں کو بھی ایک دوسرے کے حوالے کیا گیا ہے مگر جب تک اسٹیکس مستقل طور پر نہیں وجود پاتے اس وقت تک تعلقات بس موجودہ سطح تک ہی رہیں گے۔ باقر العلوم یونیورسٹی ایران میں ’’مشرق میں انسانی حقوق کا تصور‘‘کے موضوع پرکانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ مغرب جو اس وقت انسانی حقوق کا چیمپئن بنا ہوا ہے اسکے نزدیک انسانی حقوق کیا ہیں؟ بات واضح ہے کہ مغرب نے انسانی حقوق کا تصور اپنی ثقافتی و سماجی زندگی اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے تراشا ہے اور وہ صرف اپنے طے شدہ پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے ہی انسانی حقوق پر بات کرتا ہے کیونکہ اس سے ہی ا سکی ثقافتی یلغار کو محفوظ مورچہ ميسر آتا ہے۔ تاہم جب ہم مشرق میں انسانی حقوق کا تصور پیش کریں تو ہمیں مغرب والی غلطی نہیں دہرانی چاہئے کہ ہم اپنے تصورات کو مسلط کرنے کو ہی انسانی حقوق تصور کریں۔ اس کانفرنس میں گرم موضوع غزہ ہی تھا اور اس میں پاکستان کا بھی ذکر ہوا۔ فلسطينی اور لبنانی مقررین نے اپنی تقاریر اور بعد میں مجھ سے بالمشافہ گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے خاص طور پر بات کی۔ فلسطينی نے کہا کہ پاکستان ہمارے ساتھ کھڑا ہے مگر ہمیں پاکستان سے مزید توقعات ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو کیا مزید توقعات ہیں تو انہوں نے کہا کہ پاکستان اگر ہمارے لوگوں کو بلا کر پاکستانی دفتر خارجہ میں ملاقات، بریفنگ کا انتظام کرے تو اس اقدام کا ہی غیر معمولی اثر قائم ہو جائیگا۔ لبنانی نے کہا کہ پاکستان ایک بہت بڑا ملک ہے، ایٹمی طاقت ہے، اس کے علاقائی سیاست کی بدولت چین سے بھی گہرے مراسم ہیں۔ اگر پاکستان اس پر کوئی گروپ قائم کرے، وزیر خارجہ اس پر بات کریں کہ اسرائیل لبنان تک میں گھس گیا ہے تو دنیا اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتی ہے اور دنیا میں امریکہ بھی شامل ہے۔

تازہ ترین