• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے میں پائی جانے والی اخلاقی برائیاں

ڈاکٹر نعمان نعیم

(گزشتہ سے پیوستہ)

غرور و تکبر …

’’غرور و تکبر‘‘ ایک سنگین اخلاقی برائی ہے جو انسان کے اخلاقی معیار کو متاثر کرتی ہے اور اس کے رشتوں میں دراڑ پیدا کرتی ہے۔ یہ برائی انسان کو اپنی کامیابیوں اور خوبیوں پر ایسا فخر کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ دوسروں کی حیثیت اور خوبیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ غرور ایک ایسے رویے کی عکاسی کرتا ہے جس میں انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، جبکہ تکبر کا مطلب ہے کہ انسان اپنی حیثیت یا طاقت کی بناء پر دوسرے لوگوں کو حقیر جانتا ہے۔ 

یہ دونوں رویے عموماً ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور کسی بھی معاشرتی یا مذہبی نقطۂ نظر سے ناپسندیدہ ہیں۔ اگر کسی شخص کے پاس دولت یا وسائل زیادہ ہوں، تو وہ ان کے بل بوتے پر خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھتا ہے۔

بعض اوقات علم و حکمت کا زعم بھی غرور و تکبر کا باعث بنتا ہے، جہاں ایک فرد اپنے علم کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خاندان، قوم، یا گروہ کی بنیاد پر کسی خاص حیثیت کا ہونا بھی غرور کی وجہ بن سکتا ہے۔حسن وجمال، ذہانت، عہدہ ومنصب، ہ ردل عزیزی، مسلسل کامیابیاں، مال کی فراوانی،بڑے خاندان سے ہونا اور ان چیزوں کو قابل فخرسمجھنا غرور و تکبرکی وجوہات میں شامل ہیں۔

غرور و تکبر کے نقصانات…

یہ رویے دوسروں کے ساتھ انسان کے تعلقات کو خراب کرتے ہیں اور محبت و احترام کی جگہ دوریاں پیدا کرتے ہیں۔ تکبر کی وجہ سے انسان نئے خیالات، علم اور نصیحت کو قبول کرنے میں ناکام رہتا ہے، جس سے اس کی ترقی رُک جاتی ہے۔ 

مغرور ومتکبر شخص کو سب ناپسند کرتے ہیں، اُن کی عزت کرنے والے بھی محض اُن کے ڈراور خوف سے اُن کی عزت کرتے ہیں، ورنہ پیٹھ پیچھے وہ بھی اُنہیں برا کہتے ہیں۔

غرور و تکبر سے بچنے کے طریقے…

اپنے آپ کو دوسروں کے برابر سمجھنا اور ان کی کامیابیوں کا احترام کرنا، یہ جاننا کہ سب کچھ اللہ کی عطا سے ہے اور کوئی بھی انسان اپنی حیثیت میں مستقل نہیں ہے، دوسروں کی مشکلات میں ان کی مدد کرنا اور انہیں خود سے زیادہ اہمیت دینا، ہر دم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا، اپنی پیدائش اور بچپن کی بے بسی کی حالت اور اپنی حقیقت کو ہردم یاد رکھنا، غریبوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یہ وہ امور ہیں، جنہیں اختیارکرکے انسان غرور وتکبر سے بچ سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے غرور و تکبر میں مبتلا افراد کو سخت سزاؤں کی وعید سنائی ہے، ارشاد ہے: تکبر کرنے والوں کے لیے میرا عذاب سخت ہے۔(سورۃ العنکبوت،آیت: 39) ایک اور مقام پر فرمایا: بے شک ،اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃالنحل، آیت: 23)نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم)

دوسروں کی تحقیر…

وسروں کی تحقیر ایک سنگین اخلاقی برائی ہے جو انسانی رشتوں میں دراڑ ڈالتی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی کو متاثر کرتی ہے۔ یہ برائی فرد کی خود اعتمادی کو کمزور کرتی ہے اور اجتماعی سطح پر نفرت، تنازعہ، اور دشمنی کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسروں کی تحقیر سے مراد کسی شخص یا گروہ کی حیثیت، خصوصیات یا کامیابیوں کو جان بوجھ کر کم سمجھنا یا انہیں بے وقعت کرنا ہے۔ 

یہ تحقیر لفظی طور پر بھی ہو سکتی ہے، جیسے: مذاق اڑانا یا توہین کرنا۔ یا غیر لفظی طور پر بھی ،جیسے منفی رویے یا غیر مہذب افعال اپنانا۔ بعض اوقات، جو لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں، وہ دوسروں کی تحقیر کرکے اپنی برتری محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد بعض اوقات اپنی قوم، نسل یا گروہ کی بنیاد پر دوسروں کو حقیر جان کر اپنے گروہ کی عظمت کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کسی کو دوسروں کی کامیابیوں سے حسد ہوتا ہے تو وہ اس کے خلاف تحقیر آمیز رویہ اپناتا ہے۔

دوسروں کی تحقیر کے نقصانات…

تحقیر کا نشانہ بننے والا فرد ذہنی دباؤ، خود اعتمادی میں کمی، اور جذباتی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ رویہ دوستی، تعلقات، اور حتیٰ کہ خاندانی رشتوں میں بھی دراڑ ڈال دیتا ہے، جس سے بگاڑ اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ جب معاشرے میں دوسروں کی تحقیر کی جاتی ہے، تو یہ معاشرتی ہم آہنگی اور اتحاد کو متاثر کرتا ہے، جس سے مختلف طبقات میں تناؤ پیدا ہوتا ہے۔

دوسروں کی تحقیر سے بچنے کے طریقے…

دوسروں کے ساتھ نرمی اور احترام سے پیش آنا اور ان کی خصوصیات اور صلاحیتوں کی قدر کرنا، یہ سمجھنا کہ ہر انسان کی اپنی قابلیت اور اہمیت ہے اور کسی کی حیثیت کو کم کرنے سے خود کا مقام بلند نہیں ہوتا۔ یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے جو انسانی رشتوں کو نقصان پہنچاتا اور معاشرتی ہم آہنگی میں خلل ڈالتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، ہمیں اپنی زبان اور رویے کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے، دوسروں کا احترام کرنا چاہیے اور ہر فرد کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ رویے ایک مثبت معاشرہ تشکیل دینے میں مدد دیتے ہیں، جہاں ہر انسان کو عزت و احترام ملے۔

قرآن و سنت میں تحقیر کی ممانعت آئی ہے، چنانچہ ایک مقام پر للہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: اے ایمان والو! نہ تو کوئی قوم کسی قوم کا مذاق اُڑائے، عین ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ ایک دوسرے کو بُرے لقب دو۔ ایمان کے بعد برا نام رکھنا بڑا بدنامی کا کام ہے، اور جو لوگ توبہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں (سورۃالحجرات: 11)نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:کسی مسلمان کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(صحیح مسلم)

خود پسندی…

خودپسندی ایک اخلاقی برائی ہے جس میں فرد اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتا، اور اپنی خوبیوں کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔ یہ رویہ انسان کے اخلاقی معیار کو کمزور کرتا اور معاشرتی تعلقات میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔ خودپسندی بھی تکبر کی ایک شاخ ہے، اس سے مراد فرد کی وہ حالت ہے جس میں وہ اپنی خوبیوں، کامیابیوں اور صلاحیتوں کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی خوبیوں اور قابلیتوں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔

خودپسند افراد اکثر اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے خیالات یا احساسات کی پروا نہیں کرتے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، ہمیں خودپسندی سے بچنا چاہیے اور تواضع و نرمی کا رویہ اپنانا چاہیے۔ یہ رویے معاشرتی ہم آہنگی کو بڑھاتے ہیں اور انسان کو ایک بہتر فرد بناتے ہیں۔

بعض اوقات خودپسندی کمزور خود اعتمادی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ فرد اپنے اندر کی کمی کو چھپانے کے لیے خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی عوامل، جیسے کامیابی کا دباؤ، افراد کو خودپسند بنا سکتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو بچپن سے ہی خصوصی حیثیت دی جائے یا ہر وقت اُس کی تعریف ہی کی جاتی رہے تو وہ خودپسند بن سکتا ہے۔

خودپسندی کے نقصانات…

خودپسندی کی وجہ سے انسان دوسروں کے ساتھ غیر مناسب رویہ اختیار کرتا ہے، جو رشتوں میں دراڑ کا باعث بنتا ہے۔ خودپسند افراد نئے خیالات اور معلومات کو قبول کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس سے ان کی ترقی رُک جاتی ہے۔ خودپسندی انسان کو اللہ کی نظر میں کمزور بنا دیتی ہے۔

خودپسندی سے بچنے کے طریقے…

اپنے آپ کو دوسروں کے برابر سمجھنا اور ان کی خوبیوں کا احترام کرنا،اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینا، نیک اعمال اور اخلاقیات کی تربیت حاصل کرنا اور اُن پر عمل کرنا خود پسندی سے نجات دلاسکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے خودپسندی اور تکبر کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے، ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: (حضرت لقمان حکیمؓ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا) اور زمین میں گھمنڈ سے مت چلو، بے شک تم زمین کو ہرگز نہیں پھاڑ سکتے، نہ ہی پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتے ہو۔ (سورۃ الاسراء، آیت: 37)نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس شخص کے دل میں ذرہ بھر تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم)

لالچ…

لالچ ایسی کیفیت یا خواہش ہے جس میں انسان اپنی استطاعت سے بڑھ کر مال، جائیداد، یا منفعت کی طلب رکھتا ہے۔ یہ ایسی ہوس پر مبنی عمل ہے جو انسان کو مزید پانے کی جستجو میں حریص اور غیر مطمئن بنا دیتی ہے، چاہے وہ چیز حلال ہو یا حرام۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسے کی کمی اور آخرت سے غفلت انسان کو لالچی بنا دیتی ہے۔

دوسروں کی ضروریات اور حقوق کا خیال نہ رکھنا، دنیا کی زینت اور دولت کی محبت بھی انسان کو حریص بنا دیتی ہے۔ اللہ کے دیے ہوئے رزق پر اطمینان نہ ہونا اور اس بات پر یقین نہ رکھنا کہ اللہ ہر کسی کو اس کا حصہ دیتا ہے انسان کو لالچ کے اندھے کنویں میں دھکیل دیتا ہے۔ مال بڑھانے اور دنیوی آسائشوں کی حرص بھی انسان کو لالچی بنادیتی ہے۔

لالچ کے نقصانات…

لالچ انسان کو ہمیشہ غیر مطمئن رکھتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کبھی سکون نہیں پاتا۔ لالچ انسان کو خودغرض بنا دیتی ہے، جس سے خاندانی اور معاشرتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کی نافرمانی والا عمل ہے اورایسا فعل کر کرنے اور حقوق العباد کی پامالی کرنے والے کو آخرت میں سخت حساب دینا پڑے گا۔ لالچ کے باعث انسان جھوٹ، دھوکا دہی اور بددیانتی جیسی برائیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔: ’’اور تم لوگ نہ اس چیز کی آرزو کرو جس میں اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘(سورۃ النساء،آیت: 32) 

اس آیت میں لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دوسروں کے مال و دولت، حسن وجمال، فطری صلاحیتوں یا نعمتوں پرنظر نہ رکھیں، اللہ کی تقسیم پر راضی رہیں۔ اس نے جس کو جو کچھ دیا اُس کے حق میں وہی بہتر تھا۔ جس کو مرد بنایا اُس کے لیے مرد بننا ہی بہتر تھا اور جس کو عورت بنایا اُس کے لیے عورت ہونا ہی بہتر تھا۔جس کو مال دیا اُس کے لیے مال بہتر، جس کو مال نہیں دیا اُس کے لیے وہی حالت بہتر تھی۔

آپ ﷺ نے مال و دولت اور دنیاوی چیزوں کی لالچ سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، اور فرمایا کہ اصل دولت دل کی بے نیازی ہے۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر انسان کے پاس دو وادیاں سونے کی ہوں تو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس تیسری وادی بھی ہو۔ اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔‘‘ (صحیح بخاری )

لالچ سے بچنے کے طریقے…

لالچ سے بچنا اور اللہ پر توکل کرنا دل کو سکون بخشتا ہے اور انسان کو اخلاقی طور پر مضبوط بناتا ہے۔ اس سے بچنے کے مختلف طریقے ہیں۔ قناعت کا جذبہ پیدا کریں کہ اللہ کی تقسیم سے بہتر کسی کی تقسیم نہیں ہوسکتی، اُس نے مجھے جن جن نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے، میں دل سے اُن پر راضی ہوں۔ اللہ کی تقسیم پر راضی رہیں اور اپنے رزق کو اللہ کے فیصلے کے مطابق تسلیم کریں۔

جو کچھ اللہ نے دیا ہے، اس پر شکر ادا کریں اور اس سے خوش ومطمئن رہیں۔دنیاوی مال و دولت فانی ہے، آخرت کی فکر اور اس کے لیے تیاری کریں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دل میں مال کی محبت کم ہوتی ہے، اس لیے صدقہ خیرات وغیرہ کاخوب اہتمام کیا کریں۔ اللہ سے مغفرت مانگتے رہیں اور اپنے دل کو دنیاوی محبتوں سے پاک کریں۔ (… جاری ہے… )

اقراء سے مزید