• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملتان کے نواں شہر چوک کے پاس ملتان کے طاقت ور پٹھانوں نے احمد شاہ ابدالی کی جائے ولادت کی ایک مفروضہ یادگار بنائی تو میں اپنے بچپن میں سوچا کرتا تھا کہ اگر ان کی والدہ کو درد زہ ہوا تھا تو کوئی ان کو ملتان مشن ہسپتال میں کیوں نہ لے گیا جہاں کی مس کیوری کی مسکراہٹ اور تھوڑی بہت یسوع مسیح کی عبادت یا دعا میری ان پڑھ ماں کی یادداشت میں محفوظ تھی۔ پھر بعد میں ہمارے پروفیسر عاشق محمد خان درانی اور عمر کمال خان سدوزئی نے اس، حوالے سے کتابوں اور مضمونوں کے انبار لگا دیئے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت ابدالی میزائل شاید ڈرائنگ کی صورت میں تھے وگرنہ ہمارے پروفیسر عاشق درانی صاحب زکریا یونیورسٹی کے سینئر موسٹ پروفیسر غلام مصطفی چوہدری کی ’برطرفی کی بجائے یہ میزائل ہی ان پر چلا دیتے۔ خیر خدا کا شکر ہے کہ عدالت نے فوجداری کے ایک معروف وکیل کی وکالت پر یہ فیصلہ کالعدم قرار دیا اور صاحب زادہ فاروق علی کے چیمبر میں کچھ عرصہ وکالت کرنے والے چوہدری مصطفی بحال ہوئے اور بعد میں زکریا یونیورسٹی کے کئی اعتبار سے تاریخ ساز وائس چانسلر ثابت ہوئے۔

پھر مجھے یاد آتا ہے کہ بعد میں ملتان طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد نصیر خان مجھے سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر کے پروجیکٹ کی منظوری کیلئے ایچ ای سی کے بعد پلاننگ کمیشن کے اجلاس میں لے گئے تو کچھ لوگوں نے شاید مجھے چھیڑا کہ یہ سرائیکی اسٹڈیز کیا ہے تو میں نے کہا یہ ’’مدر اسٹڈیز‘‘ ہے۔ کسی نے کہا سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھلا سرائیکی ایریا اسٹڈی کی کیا ضرورت ہے؟۔ میری خوش نصیبی کہ اسی صبح ہمارے اخبارات میں افغان وزیر خارجہ کا بیان چھپا کہ پاکستان اپنے میزائلوں کے نام ہمارے ہیروز (غزنوی، غوری اور ابدالی) کے نام پر نہ رکھے۔ میں نے آواز بلند کی‘۔

آج پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے ان کی اپنی تاریخ، زبانیں اور ثقافت ہے۔ یہ ایریا اسٹڈی سنٹر تحقیق کے بعد احساس فخر کے موجب نئے کردار سامنے لائے گا۔ اس پر ایک رعونت بھرا سوال آیا کیا ملتان کے لوگ اس قابل ہیں کہ وہ یہ ریسرچ کر سکیں؟ جس پر میں نے کافی کڑوا جواب دیا جس کے بعد ڈپٹی چیئر مین نے ڈاکٹر نصیر خان سے کہا کہ آپ تو اپنا ابدالی میزائل ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ آپ کا گھر خطرے میں ہو تو پھر آپ جنگ بازنہ ہوتے ہوئے بھی وطن کا دفاع کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔

1965 کی جنگ میں ،میں ایف اے کا طالب علم تھا میرے پاس دو بینڈ کا ریڈیو تھا جو میرے کان سے تب بھی چپکا ہوا ہوتا جب سائرن بجنے کے بعد ہم لوگ کسی ایسی خندق میں ہوتے جسے سنیما ہال سے تیسرا شو ٹوٹنے کے بعد کچھ صحت مند تماشائیوں نے امیر خسرو کی طرح پکڑے جانے کے بعد مجبوری میں کھودا ہوتا۔ تب میں آکاش وانی سے ہندی خبریں بھی سنتا، ریڈیو پاکستان کے ساتھ رات آٹھ بجے بی بی سی کی خبریں بھی۔ ہمارے ترانوں کے ساتھ اشفاق احمد کا تلقین شاہ جیسا نیم مزاحیہ نیم طنزیہ پروگرام بھی۔ تب اخبارات میں ایک افغان صوفی بزرگ نعمت اللہ شاہ ولی کی فارسی زبان میں منظوم پیش گوئیاں مختلف اخبارات کی زینت ہوتیں پھر ان پیش گوئیوں کی شدید جذباتی ضرورت ہمیں دسمبر 1971 میں پڑی تب میں کوئٹہ کالج میں پڑھا رہا تھا اور فلسفے کے ’نیم ملحد‘ پروفیسر سعید احمد رفیق نعمت اللہ شاہ ولی کے ایک شعر کی روشنی میں ایک کماندار سے توقع باندھے ہوئے تھے کہ ایک شعر میں کہا گیا تھا مسلمانوں کی وقتی پسپائی کے بعد وہ مسلمانوں کی کمان سنبھالے گا اور پھر ’کفار‘ کو واضح شکست ہو گی۔ تب سے اب تک بہت سی کتابیں آ گئیں ،سرچ انجن آ گئے، ٹیکنالوجی آ گئی، بد قسمتی سے نریندر مودی اور ان کی جماعت نے برصغیر کی ایک ہزار برس کی تاریخ سے ہی انکار کرکے جنگ کا ماحول بناکر پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے پانی کی بندش کی دھمکی پر بہت سوں کو منٹو کا افسانہ’’یزید‘‘ 'یاد آیا ہوگا اور یہ بھی کہ 1955 میں اس، دنیا سے چلے جانے والے کشمیری منٹو نے کیوں کہا تھا کہ یزید کا کفارہ بھی کوئی یزید ہی اداکر سکتا ہے!

کیا ایسا کوئی نریندر مودی بھارت میں نہیں ہو گا جس کے صحن میں بچے کھیلتے ہوں جن کے بستوں میں تتلیاں ہوں خواب ہوں امن اور سکون کے اور وہ مقبوضہ کشمیر کی ایک چوکی پر لہرائے جانے والے سفید پرچم کی طرح کئی پرچم لے کر پھرتے ہوں۔

تازہ ترین