• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مودی بھائی سنا ہے کہ برصغیر کے سیاسی اور غیرسیاسی حالات پر آپ کوغیر معمولی دسترس حاصل ہے؟‘‘

یہ سوال میں نے مودی بھائی سے پوچھا تھا۔ قصہ آگے بڑھانے سے پہلے میں آپ کی غلط فہمی دور کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ انسانی ذات کی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی کے حصے میں ایسا کوئی نرالا نام آیا ہو کہ اس جیسا غیر معمولی نام اس سے پہلے کسی کے حصہ میں نہیں آیا ہو۔ مثلاً آپ کی اپنے دوست عبدالقدوس بدایونی سے خوب گاڑھی چھنتی ہے۔ گاڑھی چھننے والی بات کو گاڑھا ہی رہنے دیں۔راز کی بات کو راز ہی رہنے دیں۔ اس راز کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش مت کریں۔ آپ اگر اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ آپ اُڑتی چڑیا کے پر گن سکتے ہیں، تو پھر بھول جائیں کہ کبھی آپ اُڑتی چڑیا کے پر گن سکتے تھے۔ اب آپ اُڑتی ہوئی چڑیا کے پر گن نہیں سکتے۔ ایک عرصہ گزر چکا ہے کہ پروں والی چڑیائوں نے اُڑنا ترک کر دیا ہے۔ اُڑنے والی چڑیائیں اب آپ کو چڑیا گھروں میں بھی دکھائی نہیں دیں گی۔ ایٹم بم بنانے والوں نے ایٹم بم بنانے کے بعد آج سے اسی برس پہلے ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم برسا کر دیکھے تھے۔

ایک لمحہ میں لاکھوں بچے، بڑے، بوڑھے ہیبت ناک موت مر گئے تھے اور جو گنتی کے لوگ بچ گئے تھے وہ تا عمر اپاہج ہوگئے تھے۔ اپنا کارنامہ دیکھنے کے بعد ایٹم بم بنانے والے اور چلانے والے پاگل ہوگئے تھے اور پاگل خانوں میں مر کھپ گئے تھے۔ تب سے اُڑنے والی چڑیائوں نے اُڑنا چھوڑ دیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اللہ سائیں کو پیاری ہوگئی تھیں۔ اب جو آپ کو اُڑتی ہوئی چڑیائیں دکھائی دیتی ہیں، وہ برقی چڑیائیں ہوتی ہیں۔ برقی چڑیائوں کے پر نہیں ہوتے۔ ماہر ہونے کے باوجود آپ برقی چڑیائوں کے پر نہیں گن سکتے۔

ایک چھوٹی سی بات یاد رکھنے سے آپ کا کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ آپ پہلے کی طرح اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی خریدوفروخت میں مصروف رہیں گے۔ اور زندگی بھر دے دیا اور لے لیا چیختے چلاتے رہیں گے۔ میں مودی سے بات چیت کرتا رہتا ہوں۔ جس طرح آپ کا دیرینہ دوست عبدالقدوس بدایونی دنیا کا اکیلا اور واحد عبدالقدوس بدایونی نہیں ہوتا، عبدالقدوس بدایونی کے نام سے دنیا میں بے شمار عبدالقدوس بدایونی سانس لے رہے ہوتے ہیں۔ روزانہ عبدالقدوس بدایونی پیدا ہوتے ہیں اور روزانہ عبدالقدوس اللہ سائیں کو پیارے ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مودی بھائی کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ مودی بھائی دنیا میں آتے رہے ہیں اور اسی طرح دنیا سے رخصت ہوتے رہے ہیں۔ یہ آپ کے یا میرے بنائے ہوئے قوانین نہیں ہیں۔ یہ ازلی قوانین ہیں۔ آپ ان قوانین میں کسی قسم کی ترمیم کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ مودی بھائی کی طرح میں گنہگار بھی لگاتار اس دنیا میں آتا رہا ہوں، اور کچھ عرصہ بعد اللہ سائیں کو پیارا ہوتا رہا ہوں۔

ہر جنم میں مودی بھائی اور میں پچھلے جنم میں نامراد رہ جانے والی باتوں سے حالات حاضرہ کی باتوں کا آغاز کرتے ہیں۔میں آپ کو باور کروانے کی حیثیت میں نہیں ہوں کہ جس مودی سے میں ملتا رہا ہوں وہ مودی ہندوستان کا وزیراعظم بھی رہ چکا ہے۔ میں خود بھی یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ میں نہیں جانتا کہ جس مودی بھائی سے میں باتیں کرتا رہا ہوں وہ عبدالقدوس بدایونی قسم کا کوئی آدمی ہے۔ وہ مودی بھائی کی طرح تعداد میں بے انتہا ہوتے ہیں۔ میں نے مودی بھائی سے پوچھا، ’’کلفٹن اور ڈیفنس جیسے متمول علاقوں کو چھوڑ کر تم نے ملیر جیسے پسماندہ علاقے پر بم کیوں برسائے؟‘‘

’’یہیں پر تم غلطی کر جاتے ہو۔‘‘ مودی بھائی نے کہا۔ ’’میں وہ والا مودی نہیں ہوں۔ ویسے تمہاری طرح مجھے بھی تعجب ہوا تھا کہ دلی والے مودی نے کلفٹن کی بجائے ملیر پر بم کیوں برسائے تھے۔‘‘

میں نے پوچھا ’’کچھ پتہ چلا؟‘‘

’’وہ ہیومن ایرر Human Errorتھا۔‘‘ مودی بھائی نے کہا۔ ’’دلی والے مودی صاحب اصل میں امر جلیل کے گھر پر بم برسانا چاہتے تھے۔ ان کو بعد میں پتہ چلا کہ امر جلیل ملیر میں نہیں، بلکہ کلفٹن میں رہتے ہیں۔‘‘

میں نے پوچھا ۔’’کب تک چلتی رہے گی یہ مانگے تانگے کی جنگ؟

مودی بھائی نے کہا ۔ ’’جب تک امر جلیل کا گھر بموں سے ملیامیٹ نہیں کردیتے۔ تب تک جاری رہے گی۔‘‘

تازہ ترین