ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں چینی کی اوسط قیمت 3.38روپے فی کلو مزید بڑھ کر 175.19روپے تک جا پہنچی ہےاور یہ رجحان پی ٹی آئی حکومت کے زیرانتظام خیبر پختونخوا میںبڑی خاموشی کے ساتھ پندرہ بیس روز سے جاری ہے۔ جہاںچینی 185روپے فی کلو تک فروخت ہورہی ہےجبکہ دوسرے صوبوں میں یہ اضافہ حالیہ ہفتے کے دوران دیکھا جارہا ہے،جس کا فوری ادراک کرتے ہوئے ذمہ داران کو قانون کی گرفت میں لایا جانا ضروری ہے۔واضح ہو کہ وفاق نےملک بھر میں چینی کی ریٹیل قیمت 168روپے فی کلو مقرر کررکھی ہے،حالانکہ یہ بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں 36روپے فی کلو زیادہ ہے۔چینی کی قیمتوں میں اضافے کا یہ عمل ستمبر اکتوبر میں شروع ہوا تھا اور حکومتی عمل دخل کے بغیر ملوں اور آڑھت کی سطح پر یک طرفہ طور پر فروری کے اختتام تک چینی کے نرخ 165روپے فی کلو تک پہنچ چکے تھے،جس کا اثر رمضان المبارک میں بیکری کے سامان،مٹھائی اور مشروبات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں مزید سامنے آیا، اس دوران خود چینی کی قیمتوں میں اوسطاًمزید14روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ذخیرہ اندوری،اسمگلنگ اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے کا سلسلہ ملک میں گزشتہ تین چار دہائیوں سے چلا آرہا ہے،اگر سخت ترین اور قرار واقعی سزائوں پر مشتمل قوانین بنائے جاتے اور اسی قدر ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے اقدامات بروئے کار لائے جاتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اگرصورتحال کو قابو نہ کیا تو وہ دن دور نہیںجب چینی200روپے فی کلو سے متجاوز ہوجائے گی ۔ضروری ہے کہ مشکوک شوگر ملوں اورہول سیل ڈیلروں،خصوصاً ذخیرہ اندوزوں پر کڑی نظر رکھی جائے،کیونکہ ان حالات میں ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی بڑھنے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔