جنگوں کے اثرات دیرپا اور دور رس ہوتے۔ 75سال سے زائد گزرنے کے باوجود جنگ عظیم دوئم کے اثرات ابھی تک یورپ میں موجود ہیں ۔حالیہ پاک بھارت جنگ کے بھی سیاسی، سفارتی، معاشی اور دفاعی اثرات ہوں گے۔ ماضی کی پاک بھارت جنگوں کے سیاسی اثرات میں 1965ء کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند میں شکست کے تاثر سے لال بہادر شاستری ہارٹ فیل ہونے سے اِس جہان سے رخصت ہوگئے۔ کارگل کی جنگ کے بعد پرویز مشرف اور نواز شریف کے مناقشے میں نواز شریف کو رخصت ہونا پڑا۔ حالیہ جنگ کا تاثر یہ بنا ہے کہ وزیر اعظم مودی اپنے عزائم میں ناکام ہوئے ہیں اور پاکستان کی فتح کا تاثر دنیا بھر میں قائم ہوا ہے۔ اس تاثر کے بعد وزیر اعظم مودی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ وہ اقتدار میں رہیںگے یا انہیں رخصت ہوناپڑے گا؟۔
وزیر اعظم مودی بھارت میں 2014ء سے برسراقتدار ہیں گویا انہیں حکومت کرتے ہوئے مسلسل گیارہ سال ہو چکے ہیں ،مودی کا پاکستان کے بارے میں مجموعی رویہ رعونت آمیز تھا،اسی وجہ سے پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں سیاسی حلقوں میں ان کیلئےکوئی ہمدردی نہیں پائی جاتی۔ اکثرحلقوں کی رائے میں مودی کا سیاسی زوال پاکستان کیلئے بہتر ہوگا کیونکہ مودی کی جگہ راہول گاندھی حکومت میں آئے تو وہ ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کی سیاست کرنے کی بجائے سیکولر بھارت کی سیاست کریں گے جوبھارت کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے سکھ کا سانس لینے کےمترادف ہوگا۔ گزشتہ 50 سال میں پاکستان اور بھارت کے بہترین تعلقات منموہن سنگھ اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں قائم ہوئے وگرنہ ان ادوار کےعلاوہ کوئی نہ کوئی چشمک جاری رہی۔ ایک دوسری اور متضاد رائے یہ ہے کہ مودی جی اس وقت سیاسی اور سفارتی طور پر کمزور ہیں اس لئے پاکستان کا انکےساتھ ڈیل کرنا آسان ہوگا ۔ سفارتی ذرائع، جن کی بھارت کی سیاست پر گہری نظر ہے، کا کہنا ہے کہ مودی جی کو جو دھچکا لگا ہے وہ وقتی ہے اور وہ جلد ہی نیا اورپہلے سے سخت بیانیہ بنا کر میدان میں آئیں گے۔ان ذرائع کے خیال میں حالیہ جنگ سےمودی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں مخلوط حکومت کے اتحادی قائم دائم ہیں، راہول گاندھی کی ایسی سیاسی پوزیشن ابھی تک نہیں بن سکی کہ وہ مودی جی کو شکست سے دو چار کرسکیں۔ ان سفارتی ذرائع کا خیال ہے کہ عالمی دبائو کے تحت مودی جی بالآخر مذاکرات پر بھی تیار ہو جائینگے اور مذاکرات کا نتیجہ بھی نکل آئے گا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کا ڈھانچہ اور ماخذ سمجھا جائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی دراصل راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)کے سیاسی ونگ کا نام ہے ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کی ترجمان آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوت ہیں گویا وہی جنتاپارٹی کے نظریاتی لیڈر ہیںبالکل اسی طرح جس طرح پاکستان کی مذہبی انتہا پسند جماعتوں کا مرکزی امیر ہی ان کا نظریاتی لیڈر ہوتا ہے باقی شاخیں اس کی سربراہی میں کام کرتی ہیں ۔بھارتی حکومت کو اس وقت مودی اور امیت شاہ چلا رہے ہیں جس طرح مودی شروع ہی سے آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں اسی طرح امیت شاہ آزادی ہند کے رہنمامنشی سے متاثر ہیں منشی کا گاندھی سے اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا پر اختلاف تھا ایک بار وہ کانگریس سے الگ ہوگئے مگر پھر دوبارہ نہرو کابینہ کا حصہ رہے۔ ان تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ مودی اور امیت شاہ کی حکمت عملی اس خطے پر غلبے اور اکھنڈ بھارت بنانے کی ہے جو عملی طورپر ناممکن ہے، حالیہ جنگ کے بعد ان کے رعونت آمیز رویے کو پہلی دفعہ بہت بڑی شکست ہوئی ہے۔ مودی جی کا یہ دعویٰ بھی چیلنج ہوگیا ہے کہ بھارت بہت بڑا ملک ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے اس کی معاشی اور بین الاقوامی طاقت اتنی ہے کہ وہ کشمیر کوبھی ہڑپ کرسکتا ہے، مسلم اورسکھ اقلیتوں کو بھی دبا کر رکھ سکتا ہے۔ اصولاً سفارتی اور دفاعی شکست کے بعد مودی جی کا غلبے کا خواب ٹوٹ جانا چاہیے مگر عمر بھر کے نظریات کے یکدم تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
دوسری طرف ہمیں اپنی فالٹ لائن پر بھی غور کرنا چاہیے ہمارے صحافتی ابن رشد خالد احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ جنرل ضیاء کے بعد پاکستان میں جو مذہبی انتہا پرستی بڑھی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس کے ردعمل میں مقبولیت ملی وگرنہ آر ایس ایس ایک چھوٹا سا پریشر گروپ ہوتا تھا جس کی بھارتی سیاست میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی جوں جوں پاکستانی سیاست میں مذہبی انتہا پسندی کا گراف بڑھا توں توں بھارت میں ہندو انتہا پسندی جنون کو پہنچی اور اب گزشتہ 11سال سے انتہا پسند ہندوئوں کے نمائندے مودی بھارت کے وزیر اعظم بنتے آ رہے ہیں۔اگر تو خالد احمد کی تھیوری درست ہے تو پاکستان میں انتہا پسندی اور جہادی سرگرمیاں کمزور پڑنے پر ردعمل میں بھارت میں مذہبی جنون پرستی کم ہوگی ،بھارتی میڈیا کا ہذیانی طرز عمل دنیا بھر میں مذاق بنا ہوا ہے ہمیں سچ اور توازن کے ساتھ مقابلہ کرتے رہنا چاہیے اسی سے نفرتیں اور لڑائیاں ختم ہوںگی۔بعض دوستوں کے خیال میں ہم پاکستانیوں کو کیا غرض بھارت میں مودی جی اقتدار میں رہتے ہیں یا نہیں؟ ان دوستوں کی رائے میں ہمیں بھارت پرفوکس کی بجائے صرف پاکستان پر فوکس کرنا چاہیے دوستوں کی اس رائے کے باوجود ہم ایسے ہمسائے کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے جس سے ہماری بے شمار لڑائیاں ہو چکی ہیں کشمیر پر ہمارا اس سے تنازع ہے اور ہمارے لاکھوں مسلمان بھائی اُس ملک کے شہری ہیں۔پاکستان ان وجوہات کی بنا پر بھارت کی اندرونی سیاست سے ہر وقت متاثر ہوتا ہے اسی طرح بھارت بھی پاکستان میں مذہبی جذبات کی انتہا پسندی سے متاثر ہوتا ہے۔ مودی جی نے اپنے گیارہ سالہ اقتدار میںپاکستان کو نظر انداز کیا ، لاتعلقی اور نظر اندازی کےعمل سے پاکستان کو چھوٹا کرکے پیش کرنے کی پالیسی اپنائی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ مودی شکست کے زخم کھا کر بھی اپنی وہی پالیسی جاری رکھیں گے یا پھر اس خطے کو پرامن بنانے کیلئے نواز شریف کے ساتھ مل کر ماضی میں انہوں نے جو کوشش کی تھی اس کی طرف لوٹتے ہیں ، چوائس ان کی ہے وہ تاریخ میں شکست خوردہ ہندو انتہا پسند کے طور پر زندہ رہنا چاہتے ہیں یا مستقبل میں امن و خوشحالی کی نوید سنانے والے رہنما کے طور پر دنیا سے رخصت ہونا چاہتے ہیں؟ چوائس ظاہر ہے انہی کی ہوگی۔