جنگ اور امن دو ایسے الفاظ ہیں جنکا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جنگ امن تباہ کرتی ہے اور جنگ کا خاتمہ امن لاتا ہے۔ دونوں الفاظ ایک دوسرے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور دونوں کیفیتیں ایک دوسرےکے خاتمے سے مشروط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی وجہ اکثر عرصہ امن کی صورتحال سے منسلک ہوتی ہے اور اس میں زمانہ امن میں قومی غفلت اور دو طرفہ تعلقات کی غلط فہمیوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ تاریخ کے تناظر میں جنگ کے تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی تنازع میں شامل فریقین کے درمیان جنگ شروع ہونیکی تین اہم وجوہات ہوتی ہیں۔ جنگ کا موجب بننے والی پہلی وجہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دورِ امن کے دوران دو فریقین میں سے ایک فریق کو یہ زعم پیدا ہو جائے کہ اسکا مدمقابل کمزور ہے لہٰذا وہ جنگ مسلط کر دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک فریق کو زعم ہو جائے کہ وہ بہت زیادہ طاقتور ہو گیا ہے۔ اور تیسری وجہ اسوقت جنگ کی موجب بنتی ہے جب کسی کو فریق مد مقابل کی طاقت میں اضافہ ہوتا دکھائی دے تو وہ اسکو ہم پلہ بننے سے روکنے کیلئے بھی جنگ پہ اُتر آتا ہے۔ لہٰذا دو فریقوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن ہی اکثر امن کے خاتمے اور جنگ کا موجب بنتا ہے۔ اور تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر طاقت کا یہ بے جا زعم نہ ہوتا تو پھر شاید امن عالم اس قدر مفلوج نہ ہوتا۔ امن سے جنگ کی طرف سفر زعم کا شکار ہوتا ہے جبکہ جنگ سے امن کی جانب کا سفر حقیقت آشکار ہونیکا متقاضی ہوتا ہے۔ جنگ کے خاتمے اور امن کی بحالی کی دو ہی صورتی ںہیں۔ اول یا تو ایک فریق اپنی طاقت کے بل بوتے پر فریق مخالف کو زیر کر لے یا پھر کمزور فریق اپنی کمزوری کے ہاتھوں مجبور جارح کے آگے جھک جائے۔ علاوہ ازیں تاریخ دوسرا راستہ یہ بتاتی ہے کہ جارحیت کا شکار فریق جارح فریق کے دانت کھٹے کر دے اور وہ اپنی طاقت کے خمار میں حملہ آور ہونیوالا اینٹ کا جواب پتھر میں پانے پر امن کو بحال کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یہی تاریخ عالم کی جنگوں کا حاصل سبق ہے۔ یہی نتیجہ ہم حالیہ پاکستان اور ہندوستان کے تصادم سے اخذ کرسکتے ہیں۔ 22اپریل 2025ء کو مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے مقام پر ہونیوالی دہشتگردی کے واقعہ کے بعد ہندوستان کا پاکستان پر لگایا جانے والا فوری الزام اور اختیار کیا گیا رعونت اور غرور پر مبنی رویہ اُسکا اپنے طاقتور ہونے اور پاکستان کو کمزور تصور کرنیکی خود فریبی کا عکاس تھا۔ اور یہی احمقانہ سوچ وجہ بنی اس تصادم کی جو جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لے گئی تھی۔ بھلا ہو پاکستان کا کہ جس نے خود کو ہندوستانی سوچ کے برعکس طاقتور ثابت کر کے اُسکی جارحیت کو ٹھنڈا کر دیا ورنہ یہ خطہ بھارتی پاگل پن کی نہ جانے کتنی بڑی قیمت چکاتا۔ آج کا قلمکار اور مستقبل کا مورخ جب اس پہ قلم اُٹھائے گا تو اس بات کو برملا تسلیم کریگا کہ اس جنگ کا خاتمہ اس وجہ سے ہوا کہ ہندوستان کا پاکستان کو کمزور سمجھنے کا وہم پاکستان نے عملی طور پر غلط ثابت کیا۔ اسطرح ہندوستان کی ہندوتوا کی بے لگام و انتہا پسندی کی علمبردار مودی حکومت کا پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا احمقانہ خواب پاکستان کی عسکری طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔اس تصادم میں بے گناہ انسانی زندگیوں کے ضیاع کیساتھ اگر کسی نے نقصان اُٹھایا ہے تو وہ ہندوستان کی ریاست ہے جس نے اپنے خود ساختہ اور حقیقت سے عاری بیانیہ کو آگے بڑھانے کی غلطی میں عالمی سطح پر رسوائی کو گلے لگایا۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان نے جبرا ًاس تصادم میں ملوث کیے جانے پر آزمائش کی اس گھڑی میں یقیناً مالی نقصان تو اُٹھایا لیکن پاکستان کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیںگی اور اس تصادم کے نتیجےمیں مستقبل قریب میں پاکستان کی جھولی میں بہت سے سیاسی اور سفارتی ثمرات گرنے والے ہیں۔اس تصادم نے پاکستان کے ناقابل تسخیر دفاع کا لوہا منوایا۔لہٰذا ہندوستان کو طاقت کے زور پر پاکستان کو زیر کرنے کی سوچ اور دھمکی آمیز رویے کو خاک میں دفن کرنا ہو گا اور خطے میں اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے خواب دیکھنے چھوڑ کر اپنے رعونت پسندانہ رویے پر نظر ثانی کرتے ہوئے حقیقت کو مد نظر رکھ کر تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی طرف بڑھناہو گا۔