• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیکرِ علم و عمل، خطیبِ اسلام ’’مولانا محمد اجمل خانؒ‘‘

پروفیسر عبداللہ

مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چلنے والی دینی تحریکات میں جمعیت علمائے اسلام کے اکابرین نے دیگر جماعتوں کے اکابرین کے ساتھ بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا۔ ان تحریکات پر اگر نظر ڈالیں تو اس میں سب سے پہلے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ حوالے سے تحریک 53ء میں چلی۔

جبکہ تحریک پاکستان اپنی مثال آپ ہے، لیکن دینی تحریکات میں ہر جماعت کے اکابرین اور سرکردہ علمائے کرام پیش پیش تھے، جنہوں نے خالص اللہ کی رضا ، اسلام کی سربلندی اور وطن عزیز کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی تحریکات میں کردار ادا کیا۔

ان تحریکات میں جمعیت علمائے اسلام کی قیادت نے مثالی کردار ادا کیا۔1953 ءکی تحریک ختم نبوت جو رحمت دو عالم ﷺ کی رسالت اور نبوت کے تحفظ کے لئے تھی۔ اکابرین نے میدان عمل میں اتر کر پوری دنیا پر واضح کیا کہ سیدنا صدیق اکبر ؓ کے قیادت و سیادت اور آپ کی امارت میں چلنے والی تحریک ابھی بھی جاری ہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ اس عقیدے کے تحفظ کے لیے جدوجہد تاقیام قیامت جاری رہے گی۔ 53ء کی تحریک ختم نبوت میں بڑی قدآور شخصیات جن میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا محمد اجمل خانؒ، قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ جیسے نامور علماء اور خطباء جو جری، بہادر اور نڈر تھے۔ 

جن کی خطابت کے نتیجے میں لوگ عقیدۂ ختم نبوت کے لیے پُرجوش بھی ہوتے، جیلوں کو بھی آباد کرتے، ہتھکڑیاں پہننا اعزاز سمجھتے تھے۔ ان اکابرین کی زندگی تقویٰ وطہارت سے بھری ہوئی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب وہ گفتگو کرتے تو ان کے الفاظ لوگوں کے دلوں پر دستک دیتے تھے، ان نامور شخصیات نے پرچم ختم نبوت بلند کیا، عوام کے ہاتھ میں وہ پرچم تھمایا اور آج وہ پرچم ہر مسلمان کے ہاتھ میں لہرا رہا ہے۔ 74ء میں ایک بڑی کامیابی پارلیمانی محاذ پر ملی، جس کے نتیجے میں آج پاکستان کی پارلیمنٹ پر بھی ختم نبوت کا پرچم لہرا رہا ہے۔

شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے مشن اشاعت قرآن وپیغام قرآن اور پُر امن سیاسی جدوجہد کے مشن کو لے کر چلنے والوں میں امام الاولیاء مولانا احمد علی لاہوری ؒ اور ان کے ساتھ چلنے والوں میں، بلکہ لاہور میں ابتدائی کا م کا آغاز کرنے والوں میں خطیب اسلام مولانا محمد اجمل خان ؒ نمایاں تھے ،آپ علمائے حق کے سلسلۃ الذھب کی ایسی درخشندہ کڑی ہیں جن کی ضیاء پاشیاں اُفق عالم کو ہمیشہ منور رکھیں گی اور جن کی خوشبو ئیں جہاں کو صدا معطر رکھیں گی۔

خطیب اسلام مولانا محمد اجمل خان ؒ کی ولادت ایک نام ور علمی خاندان میں ہوئی، یہ خانوادہ میدان علم میں خوب شہرت رکھتا تھا، ان کے والد ماجد مولانا غلام ربانیؒ ایک محقق عالم تھے تو والد ماجد ؒ کے پھو پھی زاد مولانا محمد احمد ؒ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز مدرس اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور دیگر اکابرین کے استاد تھے۔ 

بڑے بھائی مولانا شمس الاسلامؒ شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد رشید تھے ۔ خطیب اسلام کے خاندان میں عورتیں بھی عالمہ ،فاضلہ تھیں۔ آپ کی دادی صاحبہ علوم نقلیہ شرعیہ کی فاضلہ تھیں۔ مشکوٰۃ شریف اور دیگر کتب احادیث کے علاوہ ہدایہ جیسی کتاب بھی ان کے زیر مطالعہ رہیں۔ مولانا محمد اجمل خان ؒ کی ولادت اسی جلیل القدر خاندان میں ہوئی اور اسی ماحول میں انہوں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا۔ 

ان ہی پاکیزہ فضائوں میں آپؒ نے پرورش پائی۔ آپؒ بیک وقت عالم، معلم، محقق بھی تھے اور مصنف، مفسر، اور محدّث بھی فقیہ نکتہ رس بھی تھے، مجاہد بھی تھے اور واعظ شیر یں بیان بھی ۔ خطیب شعلہ بیاں بھی، عابد شب زندہ دار بھی، سالک عبادت گزار بھی تھے۔ 

اسی طرح سیاست کے سرخیل اور مدبر بھی ،جب کسی موضوع پر گفتگو کرنا مقصود ہوتا تو دلائل کے انبار لگا دیتے، پوری روانی کے ساتھ پرمعانی الفاظ سحر بیانی کے روپ میں بکھرتے چلے جاتے اور سحرطاری کر دیتے، اس کا اعتراف سب نے کیا۔ سب نے مانا کہ خطیب اسلام ؒ جس موضوع پر گوہر فشانی کرتے، اس موضوع کا حق ادا فرماتے۔ 

اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد اجمل خان ؒ کو علم کے حقیقی نور سے منور فرمایا تھا۔ بندہ مومن جب علم پر عمل کرتا ہے تو قدرت پھر یہ نور بندے کے سینے میں پیدا کردیتی ہے اور پھر اس بندۂ مومن سے اس نور کی وجہ سے ایسے ایسے عملی موتی منصہ شہود پر آتے ہیں کہ زمانہ ورطۂ حیرت میں پڑجاتا ہے۔

خطیب اسلام ؒ ایک بار عمرہ پر تشریف لے گئے حضرت سے مسجد حرم اور مسجد نبوی میں دوران مجلس متعدد لوگوں نے سوال کیا کہ حضرت شریعت نے تمام کاموں کو دائیں طرف سے شروع کرنے کا حکم دیا ہے، وضو دائیں طرف سے مسجد میں داخلہ دائیں پاؤں کے ذریعے، کھانا دائیں ہاتھ سے، کپڑے پہننا دائیں طرف سے، سونا دائیں پہلو پر لیکن طواف اور روضۂ رسول ﷺ پر حاضری بائیں طرف سے کیوں ہے ؟حالانکہ یہ بھی خیر الامور میں سے ہیں اور ممتاز درجہ رکھتے ہیں ساری مجلس کی نگاہیں حضرت ؒ پرلگ گئیں کہ کیا جواب ملے گا ؟

حضرت مسکرائے، اپنا سر مبارک تھوڑی دیر کےلیے جھکایا اور پھر فرمایا حج اور عمرہ کا تعلق عشق سے ہے اور یہ عشاق کی عبادت کہلاتی ہیں، طواف کے چکر حجراسود کا چومنا، مقام ابراہیم ؑپر نفل، صفا ومروہ پر دوڑنا، اَن سِلا لباس پہننا، منٰی میں رمی کرنا یہ سب عشق ہے قربانی کرنا، روضۂ رسول ؐ پر حاضری دینا، شیخین کریمین سیدنا صدیق اکبر ؓ اور سیدنا عمر فاروق ؓ کی خدمت میں سلام عرض کرنا، ان سب کا تعلق محبت کے باب سے ہے۔ 

اگر محبت نہ ہو تو کون وہاں جائے یہ محبت اور عشق ہی تو ہے کہ خدا کے بندے اور بندیاں لاکھوں روپے خرچ کر کے وہاں جاتے ہیں اورانسان کے جسم میں دل مر کزی حیثیت رکھتا ہے اور وہ مشہور حدیث ہے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں کائنات میں کسی جگہ نہیں سماتا، لیکن مومن کے دل میں سماتا ہوں اور اب دل جو مرکز محبت ہے بائیں جانب ہے اس لئے طواف اور روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کی ابتدا بائیں طرف سے ہوتی ہے ساری مجلس اس جواب پر جھوم اٹھی۔

ایک بار حضرت خطیب اسلام سے پوچھا گیا پروردگار نے اپنا گھر بیت اللہ شریف اور اپنے محبوب ﷺ کا روضۂ اطہر ایسے شہروں میں کیوں بنائے؟ جہاں گر می انتہائی شدید ہے، حالانکہ پروردگار چاہتا تو اپنے گھر اور اپنے محبوب ﷺ کے روضۂ مبارک کے چاروں اطراف ہریالی ہوتی سبزہ ہوتا ،پھولوں کی مہک ہوتی، با دنسیم کی خنکی ہوتی کلیوں کی لہکیں ہوتیں ، ندیوں کا شور ہوتا۔

آب شاروں کا زور ہوتا، لیکن پروردگار نے ایسا نہیں کیا بلکہ جس کیلئے کائنات بنائی اور جس گھر کو کائنات کا مرکز بنایا اس کے لئے ایک ریگستان کا انتخاب کیا تو آپ نے جواب میں فر ما یا کہ پروردگار دیکھنا چاہتا ہے کہ کس کی محبت میرے محبوب ﷺ سے اور میرے گھر بیت اللہ شریف سے زیادہ ہے، اگر سبزہ ہوتا ہریالی ہوتی کلیاں بوٹے اور ٹھنڈا موسم ہوتا تو نیت خالص نہ رہتی، چلو حاضری بھی دے دیں گے سیر بھی کرلیں گے، لیکن اب جو بھی جاتا ہے، محض محبت میں جاتا ہے عشق خدا اور محبت رسول ﷺ میں ڈوب کرجاتا ہے اور اگر مدینہ میں نبی پاک ﷺ کا روضہ نہ ہوتا، مکہ مکر مہ میں اللہ کا گھر نہ ہوتا تو کو ن جاتا، چنا نچہ سب جانے والے محبت میں جاتے ہیں، پھر رب بھی ان آنے والوں کو خالی نہیں بھیجتا، نوازتا ہے اور خدا کے رسول ﷺ بھی حاضری دینے والوں کی قیامت کے دن شفاعت فرمائیں گے۔

مزید فر ما یا ارے کوئی تمہارے پاس مہمان دور سے آئے تو تم اس کی کتنی قدر کرتے ہو، وہ تو رب ہے، وہ کیوں خالی لوٹائے گا اور ادھر تو نبی پا ک ﷺ ہیں، جو رحمۃ للعالمین ہیں، جن کی زبان سے کلمہ طیبہ کے علاوہ کسی سائل کے لیے لا کا لفظ نہیں نکلا، وہ کیوں خالی ہاتھ بھیجیں گے، جو دعا مانگو گے، وہاں قبول ہوگی۔ آپﷺ کے مبارک روضۂ انور پر سلام کےلیے جو بھی حاضر ہو گا، نبی ﷺ کا رب اسے وہ کچھ دے گا جو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ایک بار آپ ابیٹ روڈ گراؤنڈ میں جمعۃالمبارک کے اجتماع سے خطاب کررہے تھے کہ دوران خطاب ایک رقعہ ملا کہ کیا پتلون میں نماز ہوجاتی ہے؟ کالج یونیورسٹی کے نوجوان خطیب اسلام کے پیچھے جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ حضرت مسکرائے اور فرمایا ان کو زیادہ ثواب ہوتا ہے، کسے کسائے ہوتے ہیں ان سے پوچھو کہ رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ نماز جمعہ کے بعد سارے نوجوان آکر ملے اور کہا، حضرت آپ نے جواب دے کر تو ہمیں مطمئن بھی کر دیااور اصلاح بھی کر دی۔

حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سب سے پہلے حضور ﷺ کو تخلیق فرمایا، ابتداء حضورﷺ سے کرکے تخلیق کو برکت بخشی۔ تخلیق کے اعتبار سے سب سے پہلے آپ ؐ کی ذات مبارک ہے اور بعثت کے اعتبار سے آپﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے آپ نے عجیب انداز اختیار کیا اور کہا کہ جیومیٹری دوران تعلیم سب استعمال کرتے ہیں تو اسی سے ایک بات سمجھاتا ہوں۔ 

گول دائرہ بنانے کے لیے پر کار استعمال کی جاتی ہے۔ کاغذ پر ایک مقام پر پر کار رکھ کر گول دائرہ کھینچا جا تا ہے، جہاں پر کار رکھی جا تی ہے ،وہ مر کزی نقطہ کہلاتا ہے، اس نقطے کے بغیر گول دائرہ نہیں بن سکتا۔ 

اللہ نے بھی نبوت کا دائرہ کھینچا اور مر کزی نقطہ حضور ﷺ کو بنایا۔ حدیث کے الفاظ کو سامنے رکھیے جس طرح دائرہ مکمل ہو نے پر پر کار کو ہٹانے سے مرکزی نقطہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح اللہ کریم نے بھی تمام انبیاء کو پہلے بھیجا اور آپﷺ کی ذات مبارکہ کو سب سے آخر میں مبعوث فرما یا جس طرح نقطہ سب سے آخر میں نظر آتا ہے حالانکہ ا بتداء اس سے ہے، اسی طرح ابتداء حضورﷺ ؐسے ہے، لیکن بعثت سب سے آخر میں ہوئی۔

ایک اور مثال میں فر ما یا جس طرح ایک جلسہ یا پروگرام یا سمینار میں ایک مقرر اہم ہو تاہے وہ مر کزی خطیب ہو تا ہے، اس سے پہلے دیگر مقررین اور خطباء بیان کرتے ہیں، سب سے آخر میں مر کزی مقرر بیان کرتا ہے، اسی طرح اللہ نے ساری کائنات بنائی اور لوگوں کے سامنے خطابت کے لیے انبیاء بھیجے اور سب سے آخر میں مر کزی خطیب حضور ﷺ کو بھیجا گیا۔ یہ مختصر نمونہ خطیب ِاسلام مولانا محمد اجمل خانؒ کے علوم کی وسعتوں کا تھا۔ جنہیں پڑھ کرقارئین آسانی سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اکابر علماء کو کتنی خصوصیات سے نوازا تھا۔

آپؒ جب بیان شروع فرماتے تو گفتگو میں سیلاب کی روانی اور سمندر کی طغیانی ہوتی۔ آغاز کلام سے اختتام کلام تک یہی سلسلہ جاری رہتا۔ علمی بات کرتے وقت آنکھیں علمی جلال کا منظر پیش کرتیں اور چہرے پرایسا وقار طاری ہوجاتا کہ جس کی وجہ سے تمام مجلس پر مرعوبیت چھا جاتی ۔23 مئی 2002ء کو علم و عمل کا یہ شہسوار اپنے رب کے حضور کلمۂ طیبہ اور سورۃ الفجر کی آخری آیات کا ورد کرتے ہوئے پیش ہوا۔ اللہ آپؒ کو اعلیٰ جزاء نصیب فرمائے۔ (آمین)