• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعلیٰ اخلاقی اقدار اور تربیت و کردار سازی کی اہمیت

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

قرآن کریم نے مختلف مقامات پر رسول اللہ ﷺ کو اس دنیا میں نبی و رسول بنا کر بھیجے جانے کا ایک اہم اور بنیادی مقصد انسانوں کی تربیت و تزکیہ اور اصلاح بتایا ہے کہ ’’یہ نبی تم ہی میں سے تمہاری طرف نبی و رسول بناکر بھیجے گئے ہیں جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتے، تمہارا تزکیہ و تربیت کرتے اور تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘ ّ(مفہوم القرآن، سورۂ بقرہ، سورۂ آل عمران ، سورۂ جمعہ) تزکیہ و تربیت کارِ رسالت میں سے اہم ترین ذمہ داری ہے اور یہ تمام ہی انبیائے کرام کا فرض منصبی رہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرامؓ خصوصاً اصحاب صفہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی خوب کیا کرتے تھے، تاکہ وہ بعد میں معاشرے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تزکیہ و تربیت کو بھی عام کر سکیں۔ قرآن وحدیث میں افرادمعاشرہ کی تزکیہ و تربیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انبیائے کرامؑ، صلحاء، اکابرین ، مفسرین، محدثین اور فقہاء تزکیہ و تربیت پر جیسی توجہ اور زور دیتے رہے ہیں، آج اس میں کمی یقینی طور پر آئی ہے۔ تزکیہ و تربیت عربی زبان کے ہم معنی الفاظ ہیں۔

قرآن و سنت، لغت، اصطلاح اور اسلامی مصلحین و مربیین کے اقوال کی روشنی میں تزکیہ و تربیت کا مفہوم کسی بھی چیز یا انسان کو پاک و صاف کرنا، پاکیزہ بنانا، سنوارنا، نکھارنا، سدھارنا، نشوو نما دینا، مرحلہ وار پروان چڑھانا، اس طرح پرورش و پرداخت کرنا کہ وہ چیز یا انسان میں پائی جانے والی لا تعداد صلاحیتیں اس طرح سے پرورش، نشوونما پائیں اور نکھریں کہ وہ کمال تک پہنچ جائیں۔

انسانی تربیت سے مراد یہ ہے کہ کسی انسان کو ایسے ماحول اور حالات میں رکھا جائے کہ اس کی پوشیدہ صلاحیتیں اور قابلیتیں نکھر کر سامنے آجائیں اور اس کی صلاحیتوں کی اس قدر پرورش ہو کہ وہ انسان کامل بن جائے۔ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور قابلیتوں کو نکھارنے کا یہ عمل صرف انسان ہی سے مخصوص ہے، کسی اور ذی روح سے نہیں، یعنی تزکیہ و تربیت تو صرف انسان ہی کی ہوگی، کسی جانور کی نہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں تربیت اعلیٰ اخلاقی اقدار اور کردار سازی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ 

دین اسلام آیا ہی اس لئے کہ انسان کو بھلائی کی تعلیم دی جائے، اس پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے اور اسے برائی سے روکا جائے، جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کیا کہ قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کا جو منصب بیان کیا ہے، اس میں یہ چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔

تربیت کا عمل محدود نوعیت کا کوئی مذہبی فریضہ نہیں کہ جس کا دائرہ اس مذہب کے ماننے والوں تک محدود ہو، بلکہ یہ دین اسلام کی تعلیمات ہی کی طرح ایک ہمہ گیر مثبت عمل ہے جس کے بغیر انسانیت کو کامیابی کا راستہ نہیں مل سکتا۔ آج کا انسانی معاشرہ مختلف قسم کے مصائب اور الجھنوں کا شکار اسی لئے ہے کہ اس نے تربیت سے گریز کی راہ اختیار کر لی ہے۔ 

اگر نئی نسل اور عمر کے تمام مراحل میں زندگی بسر کرنے والوں کو ہلاکت و بربادی اور اضطراب و بے چینی سے بچانا مقصود ہو تو اس کے لئے دین اسلام کے اصولوں کے مطابق تربیت کے عمل کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ آج ہمارا معاشرہ عملاً جس نہج پر پہنچ گیا ہے، اس کا سبب یہی ہے کہ جو باتیں ہماری بھلائی کے لئے بتائی گئی ہیں، ہم ان پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں اور عمل کی ضرورت پر ہمارا یقین کم ہوگیا ہے۔

تربیت کے بغیر تعلیمی ڈھانچہ تشکیل نہیں پاسکتا۔ تربیت کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ افراد کو نفسیاتی، اخلاقی، عملی اور اعتقادی طور پر اِس بات کے لئے تیار کرے کہ وہ عملی مواد کو قبول کرسکیں۔ کیونکہ تعلیمی مرحلے میں انسان کو جو علم سکھایا جاتا ہے، اسے بعد کے مرحلے میں با ر آور اور عملی شکل دینا مقصود ہوتا ہے۔ اس طرح ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے درمیان ایک گہرا ربط اور تعلق ہے۔ اور یہ دونوں ایک عظیم مقصد کے لئے وسیلہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آج ہمارے معاشرے میں جو انتشار برپا ہے ،اس کا سبب یہی ہے کہ تعلیم و تربیت کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا گیا ہے۔ 

تعلیم کو اہمیت اور ترقی دی جارہی ہے اور تربیت کے پہلو کو بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کو ضروری اور تربیت کو غیر ضروری تصور کیا جارہا ہے ۔ تعلیم و تربیت کے درمیان فاصلہ پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تربیت کرنے والے افراد اپنی عملی زندگیوں میں بے عملی کا شکار نظر آتے ہیں۔ حالانکہ تربیت کرنے کا قرآنی اصول یہ ہےکہ’’ اے ایمان والو۔ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے‘‘ (سورۂ صف)

اسلامی تربیت کو ممتاز کرنے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ اسلام زندگی کے ہرہر مرحلے میں تربیت و کردار سازی کا قائل ہے، یعنی تربیت کا عمل صرف تعلیمی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ انسانی زندگی جس مرحلے میں بھی ہو، اسے تربیت کی ضرورت ہے۔ اسی لئے اسلام نے ’’امر بالمعروف ونہی المنکر‘‘ کا زرین اصول وضع کیا ہے۔

تمام علماء اور مصلحین کے نزدیک اسلامی تربیت کا سر چشمہ اور مآخذ قرآن و سنت ہیں۔ لہٰذا تربیتِ انسانی کے لئے گھروں سےلےکر تعلیمی اداروں اور مساجد سے لےکر خانقاہوں تک، تمام مواد اور اصول و ضوابط قرآن و سنت ہی سے حاصل کئے جائیں اور انہی کو مشعل راہ بنایا جائے۔ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کا مقصد نزول ہی انسانی تربیت اور زمین پر ایک مثالی معاشرے کی تشکیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کا تربیتی اسلوب بھی معجزانہ ہے۔ 

قرآن نے جس طرح انسانی ذہن کو مخاطب کیا اور اسے مطمئن کرنے کے لئے مثالیں پیش کی ہیں، اس کی نظیر کہیں اور نہیں مل سکتی۔ اسلامی تربیت کا دوسرا ماخذ سنت نبویؐ ہے، جو کتاب اللہ کی علمی اور عملی تشریح و بیان پر مشتمل ہے۔ انسان کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے کی واقفیت انبیائے کرامؑ سے زیادہ اورکسے حاصل ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان نفوس قدسیہ کو ہدایت و تربیت کے لئے تخلیق و مبعوث فرمایا اور اس عظیم ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے خود ان کو مکمل تربیت دی۔

اسلامی تربیت کے اہم اور بنیادی اداروں، مراکز اور مربیین میں سب سے پہلے انسان کا گھر یعنی اس کے والدین، اس کے بعد ہر نوع کے تعلیمی ادارے یعنی اساتذہ ، پھر دو اہم ترین مراکز مساجد اور خانقاہیں ،یعنی علمائے کرام اور مشائخ عظام ہیں۔ 

انسان کی تربیت کرنے والے اِن افراد یعنی ہمارے مربیین والدین، اساتذہ، علما و مشائخ کے کردار اور عملی تربیت کے حوالے سے کسی دانشور کا یہ قول آخری حجت اور روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے کہ آپ کے بچے ( یعنی اولاد، شاگرد ، مقتدی اور مریدین) وہ کبھی نہیں کریں گے جو آپ کہتے ہیں، بلکہ وہ ہمیشہ وہی کریں گے، جو آ پ کرتے ہیں۔ ہمارا المیہ عمل کا فقدان ہے۔ قول و فعل کے تضاد ہی کو منافقت کہا جاتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے تربیتی اداروں کی تشکیل اور تربیت کے ذمہ دار افراد اور ادارے اکثر و بیش تر یعنی گھروں میں والدین ، تعلیمی اداروں میں اساتذہ، مساجد میں ائمۂ کرام اور خانقاہوں میں مشائخ عظام و صوفیائے کرام کے مجموعی مزاج کی تعمیر اور خمیر میں کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کا وہ حتمی کردار نظر نہیں آتا، جس سے خالی رہ کر اسلام اور بندگی کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا۔

علم دنیا کو سنوارنے کے لئے ضروری ہے اور اخلاق (تربیت ) انسانیت کو پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے، یہ دو انتہائی بنیادی چیزیں گویا ہم نے قرآن و سنت یعنی اللہ اور اس کے رسولﷺ سے اخذ ہی نہیں کیں۔ ہمارادین ہم پر یہ واجب کرتا ہے کہ ہم اپنی بہترین صلاحیتیں قرآن و سنت سے اخذ کریں۔ اپنے دین کو قرآنی ورلڈ و یو (Quranic World View )پر رکھیں اور اپنی طبیعت کو اس اخلاقی گداز پر قائم کریں جس کا بہترین نمونہ رسول اللہﷺ کی سیرت مبارکہ اور اخلاق مطہرہ ہیں۔