• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فتح ملنے پر ادائیگیِ شکر کی شرعی تعلیمات

ڈاکٹر نعمان نعیم

سورۃ الصّف میں فرمایا گیا ہے: اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہ صَفَّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرَصُوْصٌ۔’’ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بند ہو کر لڑتے ہیں گو یا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔

اس آیت کی تشریح ہے:۔’’اس سے اوّل تو یہ معلوم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے وہی اہل ایمان سرفراز ہوتے ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے اور خطرے سہنے کے لیے تیار ہوں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو جو فوج پسند ہے ان میں تین صفات پائی جاتی ہیں۔ 

ایک یہ کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑے اور کسی ایسی راہ میں نہ لڑے جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بد نظمی وانتشار میں مبتلا نہ ہو، بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بند ہو کر لڑے، تیسری یہ کہ دشمنوں کے مقابلے میں اس کی کیفیت ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار ‘‘ جیسے ہو۔

بُنیان مرصوص ‘یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند مضبوطی صرف جنگی حالات میں ہی مطلوب نہیں ہے بلکہ عام حالات میں بھی اہل ایمان کو بُنیان مرصوص بنے رہنا ہے۔ بُنیان عمارت کو کہتے ہیں یہاں دیوار مراد ہے جس کی اینٹیں باہم سیسہ پلاکر جوڑی کی گئی ہیں اس لیے مضبوطی میں یہ دیوار بے مثال ہے۔ عام دیوار کی ایک اینٹ اکھاڑ لی جائے تو پوری دیوار کو منہدم کردینا آسان ہوجاتا ہے، لیکن سیسہ پلائی دیوار کو ڈھا دینا آسان نہیں ہوتا۔

آپریشن بُنیان مرصوص میں عظیم فتح ملنے سے ایک عرصے سے مایوس مسلمان خوش ہوگئے ہیں۔ ہم افواج پاکستان کی پشت پر کھڑے تھے اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے، مسلمان ایک عرصہ سے مایوسی کا شکار تھے اور فتح و نصرت کی خبر کےلیے کان بے تاب رہتے تھے، آپریشن بُنیان مرصوص سے پاکستان اور امت مسلمہ کا ہر فرد خوشی کے جذبات سے لبریز ہے۔ہم نے ساری دنیا میں اپنی برتری کا سکہ منوایا، پاکستانی قوم ناقابل شکست ہے، پانچ گنا دگنی فوج پر فتح مبین ملی ہے۔

دشمن نے آپریشن کا نام سندور رکھا ، جبکہ پاکستان نے آپریشن کو بنیان مرصوص قرار دیا اور اپنا لوہا منوایا۔اس کامیابی اور فتح پر جہاں عوام نے خوشی کا اظہار کیا، وہیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اس مرحلے کو محض فخریہ نعرے بازی یا وقتی جشن تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اللہ رب العزت کے شکر کے ساتھ اپنی دینی و قومی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں فتح کے نشے میں اللہ کو بھول جاتی ہیں، وہ جلد ہی پستی اور آزمائش کا شکار ہو جاتی ہیں۔

قرآن کریم کی روشنی میں شکر گزاری محض ایک اخلاقی رویہ نہیں، بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے۔ سورۂ ابراہیم کی میں ارشاد ہوتا ہے:"لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ" "اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور مزید دوں گا۔"یہ آیت ایک اصولی حقیقت بیان کرتی ہے کہ اللہ کی نعمتوں میں اضافے کا راستہ شکر گزاری سے جڑا ہے۔ فتح، عزت، امن اور استحکام جیسی نعمتیں تب ہی باقی رہ سکتی ہیں، جب ان پر شکر بجا لایا جائے۔ یہ وعدہ ہے کہ جو شکر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے مزید نعمتیں عطا فرماتا ہے۔

سورۃ النصر میں فتح کے بعد اللہ تعالیٰ نے واضح ہدایت دی:> "جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو"۔ جب مکہ فتح ہوا، تو آپ ﷺ نے تواضع اور انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر جھکا دیا اور سورۃ النصر کی تلاوت فرمائی، اور شکر کے سجدے کیے۔کامیابی کے بعد تکبر، خودپسندی، اللہ کو بھلا دینا اور نعمت کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھنا، ناشکری کی علامتیں ہیں۔

قرآن کا ایک عبرت ناک واقعہ ہے کہ قارون کو اللہ نے دولت دی، مگر وہ شکر کے بجائے تکبر کرنے لگا کہ"یہ (مال و دولت) تو مجھے میرے اپنے علم کی بنیاد پر ملا ہے"(سورۃ القصص ) نتیجے کے طور پر اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا۔

فتح کا سب سے مثالی اور کامل نمونہ ہمیں سیرتِ طیّبہ میں ملتا ہے۔ فتح مکہ ایک ایسی عظیم کامیابی تھی جس میں نبی کریم ﷺکو اپنے دشمنوں پر مکمل غلبہ حاصل ہوا۔ لیکن اس موقع پر آپ ﷺنے فخر و غرور کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ عاجزی اور انکساری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ کا سر مبارک تواضع کے سبب اتنا جھکا ہوا تھا کہ تقریباً پالان سے لگ رہا تھا۔ زبان پر "لا إلٰه إلاّ اللہ وحده، نصر عبده، وأعزّ جنده، وهزم الأحزاب وحده" کی صدائیں تھیں۔

حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ: رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور تین بار اَللہُ اَکْبَر کہا، پھر ارشاد فرمایا: اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ تنہا ہے، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا اُسی نے تمام دشمن لشکروں کو شکست دی۔(سنن ابو داؤد: کتاب الديات)

مکہ وہ جگہ تھی، جہاں پیغمبر علیہ السلام کے ساتھیوں پر مسلسل 13سال تک ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ یہیں آپﷺ کے اُوپر نماز کی حالت میں اُونٹ کا بدبودار اوجھ رکھا گیا، آپ ﷺکے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، آپ ﷺکے قتل کے منصوبے بنائے گئے، مدینہ منورہ پر بار بار چڑھائی کی گئی اور انہوں نے ہی اپنے ہاتھوں صلح حدیبیہ کی شرئط کو پامال کیا تھا۔ 

آج جب جاںنثارانِ نبوت کے ہاتھوں مکہ کے فتح کرنے کا وقت آرہاتھا تو ان ظالموں کے لیے معافی کے دروازے دنیا کے دستور کے مطابق بند ہو جانے چاہیے تھا، مگر دنیا کا دستور اورد نیا دار بادشاہوں کا طریقہ کچھ بھی رہا ہو، سرورِ کونین اور شاہِ دوجہاں رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اِس موقع پر جس دستور کو پیش کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا، وہ یہ تھا جب مکہ میں حضور اکرم ﷺاور صحابہؓ کاداخلہ ہو رہا تھا تو دنیا نے یہ منظربھی دیکھا کہ آپﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پراِس طرح تشریف فرما تھے کہ آپ ﷺکا چہرۂ مبارک اونٹنی کے کجاوے سے جا لگا تھا اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے رب کا شکر بجا لانے میں مصروف تھے۔

اِس موقع پر آپﷺ کے لبوں پر یہ آیت جاری تھی:’’اور اعلان فرما دیجیے کہ حق آگیا اور باطل شکست کھا گیا، بے شک باطل ہوتا ہی ہے مٹ جانے کے لیے ہے‘‘ ۔ جب آپﷺ شہر مکہ میں داخل ہوئے،لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ آپ پرانے مظالم کا بدلہ لیں گے، لیکن آپﷺ نے ان کی توقع کے خلاف یہ اعلان کردیا آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تمہاری غلطی کو معاف کرے گا، جاؤ تم سب آزادہو۔ (ابن ہشام)

اللہ اکبر!کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتاب زندگی میں کوئی ایسا حسین و زریں ورق موجود ہے؟ یہ نبیﷺ کےجمال و جلال کا وہ بے مثال شاہ کار ہے کہ شاہان عالم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ انسان کی فطرت میں انتقام اور قصاص کا عنصر موجود ہے اور یہ انفرادی واجتماعی دونوں سطحوں پر کارفرما رہتا ہے، لیکن فاتح مکہ ﷺنے اپنی علمی اور نبوی حیاتِ طیبہ میں دنیا پر یہ بات واضح کردی کہ آپ ﷺکو انہیں جوڑنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے، نہ کہ توڑنے کے لئے۔

گویا فتح مکہ کے پیش نظر آپﷺ کی عالمگیر تعلیمات، آپ ﷺکے اخلاق حسنہ، آپﷺ کے کردار جمیلہ، رواداری، عفوو درگزرسے عبارت ہے اور ثابت کردیا کہ امن و رواداری کا سب سے بڑا داعی دین اسلام ہے ۔اسی طرزِ عمل کو آج ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔

اسلام نے شکر ادا کرنے کے کئی عملی طریقے بیان کیے ہیں۔ فتح و نصرت کے موقع پر ان طریقوں پر عمل کرنا ایک فرد، ایک ادارے اور ایک قوم کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے۔ فتح کے فوراً بعد "الحمد للہ" کہنا، اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور اجتماعی یا انفرادی طور پر تسبیح و تہلیل میں مشغول ہونا رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرامؓ کا معمول تھا۔ دو رکعت نفل نماز شکر کے طور پر ادا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے ذریعے بندہ عملاً اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔

شکر گزاری کی ایک اعلیٰ صورت یہ بھی ہے کہ اللہ کی دی ہوئی کامیابی میں سے دوسروں کے لیے بھی حصہ نکالا جائے۔ جنگ سے متاثرہ پاکستانی علاقوں کے افراد، شہداء کے ورثاء، اور غریب طبقات کے لیے مالی امداد دینا عملی شکر ہے۔

قرآن و سنّت کے مطابق نعمتیں صرف کامیابی پر منحصر نہیں، بلکہ اس کے ساتھ اللہ کی رضا بھی ضروری ہے۔ فتح کے بعد اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرنا، اصلاحِ احوال کی کوشش کرنا، اور اجتماعی طور پر دینی شعور کو بیدار کرنا ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فتح کے بعد کی حکمت عملی فتح سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ جنگی ماحول کے بعد جذبات بلند ہوتے ہیں، قومی فخر عروج پر ہوتا ہے، لیکن یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب شیطان غفلت میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی اس لائقِ فخر نعمتِ عظمیٰ کاشکر یہی ہے کہ ہم صلاح وتقویٰ کی اسی پا کیزہ زندگی کو مستقل طور پر اختیار کرلیں جو اس وقت ہنگامۂ رزم وحرب نے پوری قوم کے اندر پیدا کردی ہے، اور خوف وخشیتِ خداوندی اور ذکرِ الٰہی کو اپنا شعار بنالیں۔ 

شجاعت وبہادری کے احساسات کو بیدار کر نے والے خصائل، ایثار و مروت، جفا کشی وسخت کوشی، جو اںمردی وحوصلہ مندی کو اختیار کرلیں، راحت پسندی وتن پروری، بے روح نام ونمود اور نمائش پسندی کو خیر باد کہہ دیں، خصوصاً غریبوں اور کمزوروں پر ترحم وشفقت کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ بیدار کریں، ہر نوجوان مجا ہدانہ احساسات سے سرشار ہو۔ غرض ایک ایسے صالح معاثرہ کی تشکیل کی جائے جو ’’باللیل رھبان وبالنھار فرسان‘‘ (رات میں تہجد گزار اور دن میں شہسوار) کی تفسیر ہو۔

غرض وقت کا تقاضا ہے کہ مادّی ترقیات میں بھی ہم زیادہ سے زیادہ اغیار سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں، مگر اس سے پہلے اللہ جل شانہٗ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور تعلق استوار کریں تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی نعمتوں سے بھی مسلمان ہی سرفراز ہوں گے۔