مظلوم فلسطینی منظم نسل کشی، جبری حراستوں، اپنے علاقوں سے بے دخلی اور ناکہ بندی جیسی غیر معمولی مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔غزہ میں 20 لاکھ افراد بھوک کے دہانے پر ہیں۔سرحد پر ایک لاکھ 60 ہزار میٹرک ٹن خوراک رکی ہوئی ہے۔امدادی سامان نہ ملا تو آئندہ 48 گھنٹوں میں 14 ہزار بچے دم توڑ سکتے ہیں۔غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔مزید 80 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔سفاک اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ پر مکمل قبضے کااعلان اور اسرائیلی فوج نے خان یونس اور آس پاس کے علاقوں سے شہریوں کے انخلا کا حکم دے رکھا ہے۔انسانیت کا تقاضا ہے کہ کوئی تو مظلوم فلسطینیوں کا چارہ گر بنے۔تاخیر سے ہی سہی برطانیہ اور یورپی یونین کی طرف سے اسرائیل پر دبائو بڑھانے کے لیے ایک اچھا فیصلہ سامنے آیا ہے۔برطانیہ نے وحشیانہ فوجی کارروائیوں اور انسانی امداد روکنے پر اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں۔یہودی آبادکاروں اور تنظیموں پر نئی پابندیوں کا اعلان اور مسئلے کے دوریاستی حل کا اعادہ کیا ہے۔یہ برطانیہ کی جانب سے اب تک سخت ترین مئوقف ہے۔یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت اور تعلقات کے معاہدوں پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان نے غزہ کو کنٹرول میں لینے کے اسرائیلی وزیر اعظم کے اعلان کو خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔کینیڈا، فرانس اور دیگر کئی ممالک نے بھی اسرائیل پر پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔اس سب کے باوجود اسرائیل کا ردعمل یہ ہے کہ کوئی بیرونی دبائو اسے مقاصد سے نہیں روک سکتا۔یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کاوجود امریکہ اور مغرب کا مرہون منت ہے۔اگر عالم اسلام اور عالمی برادری حقیقی معنوں میں مظلوم فلسطینیوں کا چارہ گر بنے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسرائیل کو لگام نہ ڈالی جا سکے۔