پاکستان میں، بچیوں کو انکے بچپن سے چھین کر ایسی زندگیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے جو انہوں نے کبھی نہیں چُنیں۔ بچپن کی شادی صرف حقوق کی خلاف ورزی نہیں؛ یہ مستقبل کی منظم مٹائی ہے۔بچپن کی شادی ہمارے ملک کی سب سے مستقل اور تباہ کن ناانصافیوں میں سے ایک ہے۔ یونیسف کے مطابق، پاکستان میں 18فیصد سے زیادہ لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر لیتی ہیں۔ یہ تقریباً ہر پانچ میں سے ایک ہے۔ اس کے اثرات زندگی بھر کیلئے ہوتے ہیں:کم عمری کی شادی سے زچگی کی موت، ذہنی صحت کے مسائل، اور گھریلو تشدد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ ایک لڑکی کی تعلیم کو مستقل طور پر متاثر کرتی ہے اور اس کیساتھ اس کا مستقبل بھی۔یہ الگ الگ نقصانات نہیں ہیں۔ یہ منظم عدم مساوات کی ساخت بناتے ہیں۔ ایک بچپن کی دلہن صرف ایک کم سن لڑکی اسکول میں نہیں؛ وہ ایک قوم کی کھوئی ہوئی صلاحیت ہے۔یہ مسئلہ میرے لیے 2013 ءمیں بہت اہم ہو گیا، جب میں نے سندھ اسمبلی میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ پیش کیا، جس سے یہ پاکستان کا پہلا صوبہ بن گیا جس نے 18 سال سے کم عمر کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا۔ یہ ترقی کا ایک لمحہ تھا۔ لیکن جب میں برسوں بعد قومی اسمبلی میں داخل ہوئی، تو یہ فطری تھا کہ میں اس پیش رفت کو وفاقی سطح پر لے کر جاؤں۔ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 2024 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جومیرا پہلا نجی رکن بل تھا۔ پاکستان کے ہر کونے میں لڑکیوں کو برابر تحفظ ملنا چاہیے۔16 مئی 2025 کو تاریخ رقم ہوئی۔ ایک سنگ میل حاصل ہوا۔ اسلام آبادکیپٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور ہوا۔ پہلی بار، ہمارے وفاقی دارالحکومت نے ایک قانونی فریم ورک اپنایا جو اعلان کرتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو شادی پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ صرف قانون سازی نہیں؛ یہ بچپن، وقار اور مساوات کے تحفظ کیلئے ایک قومی عزم ہے۔یہ بل 1929 کے پرانے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کی جگہ ایک مضبوط، حقوق پر مبنی قانونی ڈھانچہ لاتا ہے۔ یہ کسی بھی شخص، چاہے وہ نکاح رجسٹرار، خطیب، سرپرست یا والدین ہوں،کیلئے غیر قانونی بناتا ہے کہ وہ ایسی شادی کو انجام دیں یا اس میں سہولت فراہم کریں جہاں کسی بھی فریق کی عمر 18 سال سے کم ہو۔ نکاح رجسٹرارز اب قانونی طور پر پابند ہیں کہ وہ دونوں افراد کی عمر کی نادرا کے جاری کردہ درست شناختی کارڈ کے ذریعے تصدیق کریں۔جو کوئی بھی بچپن کی شادی انجام دیتا ہے اسے ایک سال تک قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ 18 سال سے زیادہ عمر کے مرد جو کسی بچی سے شادی کرتے ہیں انہیں سخت سزائیں دی جائینگی:دو سے تین سال کی سخت قید اور مالی جرمانے۔ کسی نابالغ کیساتھ رہائش، چاہے نام نہاد رضامندی کیساتھ ہو، اس قانون کے تحت واضح طور پر بچوں کیساتھ بدسلوکی کے طور پر درجہ بند ہے۔ مزید برآں، وہ لوگ جو ایسی شادیوں کا انتظام کرتے ہیں، ان کو فروغ دیتے ہیں یا ان میں سہولت فراہم کرتے ہیں، بشمول والدین، سرپرست اور سہولت کار، بھی فوجداری طور پر ذمہ دار ہیں۔یہ قانون اسمگلنگ سے نمٹنے کیلئے مزید اقدامات کرتا ہے: کوئی بھی فرد جو شادی کیلئے کسی بچے کو بھرتی کرتا ہے، پناہ دیتا ہے یا منتقل کرتا ہے، اب فوجداری الزامات کا سامنا کریگا جنکی سزائیں تین سال قید تک بڑھ سکتی ہیں۔ عدالتوں کو ایک متوقع بچپن کی شادی کو روکنے کیلئے حکم امتناعی جاری کرنے اور مخبروں اور متاثرین کی شناخت کی حفاظت کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہ اب اخلاقی درخواست کا معاملہ نہیں رہا؛ یہ اب قانون کا معاملہ ہے۔مجھے بے حد فخر ہے کہ اس بل کے ذریعے پاکستان نے بچپن کی شادی کے خاتمے کیلئے نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر اپنا عزم دوبارہ ظاہر کیا ہے۔ بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (CRC)، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کے کنونشن (CEDAW)، اور پائیدار ترقی کے اہداف سمیت متعدد بین الاقوامی کنونشنز پر دستخط کنندہ کے طور پر، پاکستان نے بچپن کی شادی جیسے نقصان دہ طریقوں کے خاتمے کا عہد کیا ہے۔ ایس ڈی جی ہدف 5.3 خاص طور پر 2030 تک بچپن کی شادی کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس قانون کے ساتھ، پاکستان نے ان بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے عالمی تحریک میں شامل ہونے کی سمت ایک حتمی قدم اٹھایا ہے۔یہ کوشش اور یہ قانون شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی پائیدار میراث کیلئے وقف ہے، جنکی زندگی خواتین اور بچوں کو بااختیار بنانے کیلئے وقف تھی۔ پاکستان کو زیادہ مساوی بنانے کیلئے انکا وژن ہمیں مسلسل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ اس سمت میں ایک قدم ہے جسے انہوں نے روشن کیا۔ ہمارے صدرآصف علی زرداری، اور ہمارے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری، کی طرف سے مجھ پر اعتماد نے مجھے اس مقصد کو آگے بڑھانے کے قابل بنایا، نہ صرف ایک قانون ساز کے طور پر، بلکہ ایک عورت، ایک ماں، اور کسی کے طور پر جو محض نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔میں قومی اسمبلی کے معزز اسپیکر، سردار ایاز صادق، کے اصولی اور بروقت کردار کو تسلیم کرتی ہوں، جنکے اس بل کی فوری ضرورت پر یقین اور اس کی منظوری کیلئے غیر متزلزل عزم نے اس تاریخی قانون سازی کو حقیقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔میں سول سوسائٹی کی تنظیموں،انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی انتھک کوششوں کا بھی اعتراف کرتی ہوں جنہوں نے اس مسئلے کو اسمبلی کے فلور تک پہنچنے سے بہت پہلے زندہ رکھا۔ ان کی آوازوں نے ملک بھر میں بے شمار لڑکیوں کی خاموش تکلیف کو عیاں کیا اور اس قانون سازی کی بنیاد رکھی۔ میں اس بل کی حمایت کرنے پر حکومت کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں اور اپنے ساتھی پارلیمنٹیرینز کابھی ، دونوں طرف کے، جو پارٹی لائنز سے بالاتر ہو کر اس قانون سازی کیلئےمتفقہ طور پر ووٹ دینے کیلئے اٹھے۔ وہ لمحہ سیاست سے بڑا تھا؛ یہ ہماری چھوٹی بچیوں کے تحفظ کیلئے ایک اجتماعی موقف تھا۔لیکن ایک بل کا پاس ہونا اختتام کی لکیر نہیں ہے۔ یہ نقطہ آغاز ہے۔ اب مشکل حصہ آتا ہے: نفاذ۔ قوانین لوگوں کی حفاظت نہیں کرتے جب تک کہ انہیں سمجھا، نافذ کیا اور برقرار نہ رکھا جائے۔ ہمیں کمیونٹیز کو تعلیم دینی چاہیے، مذہبی رہنماؤں کو شامل کرنا چاہیے، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو تربیت دینی چاہئے اور، سب سے اہم بات، یہ یقینی بنانا چاہئے کہ خطرے میں پڑی لڑکیاں اپنے حقوق سے واقف ہوں۔ اور یہ اسلام آباد تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ یہ قانون پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے صوبوںکیلئے اسی طرح کے تحفظات نافذ کرنے کیلئے ایک محرک کے طور پر کام کرے گا۔ کسی بچے کو اسکے پوسٹل کوڈ کی وجہ سے کم تحفظ نہیں ملنا چاہئے۔ آئیں ہم اس قانون کو صرف تحریر میں نہیں بلکہ روح میں بھی عزت دیں اور یہ یقینی بنائیں کہ پاکستان کی کسی بھی لڑکی کا اب کبھی رسم و رواج کے نام پر بچپن قربان نہ ہو گا۔ (مصنف قومی اسمبلی پاکستان کی رکن ہیں)