آپ سے میں بعد میں پوچھوں گا کہ اس وقت آپ کیا کھرچ رہے ہیں۔ نہ جانے مجھے کیوں یقین ہے کہ آپ کا تعلق بھی میری طرح بہت بڑی کھاتی پیتی قوم سے ہے۔ مجھے قوم کا مفہوم بتانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ عاقل بالغ اور خیر سے سیانے ہیں۔آئی ایم ایف جیسے اداروں کو کھڈے لائن لگانے میں آپ اپنا اول دوئم اور سوئم یعنی ثانی نہیں رکھتے۔ میری طرح آپ اپنی ذات میں اول، دوئم اور سوئم کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ کا ثانی ابھی پیدا نہیں ہوا۔ جب پیدا ہوگا، تب دیکھا جائےگا۔ ہمارے درمیان ایک ایسی قوم بھی رہتی ہے جس قوم کا ہر فرد اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ قوم کہلوانے کے باوجود وہ فرد واحد ہوتے ہیں۔ اور بڑے ضدی بھی ہوتے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ پولیو ویکسین کے قطرے پینے کے بعد دنیا کا کوئی بچہ ایٹم بم چلانے کے قابل نہیں رہتا۔ ایٹم بم چلانے کے لئے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے محروم رکھنا عین اشد ضروری ہے۔ بقول اس ضدی قوم کے پولیو پینے والے بچے ایٹم بم نہیں چلا سکتے ۔ وہ لوگ دنبے کی چربی میں ادرک پکا کر کھانے کو پولیو یکسین کے ڈراپس سے بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ تمام باتیں بعد کی باتیں ہیں۔ فی الحال آپ سردست، اس وقت کیا کھرچ رہے ہیں ؟ میں نے پتہ لگالیا ہے کہ کرکٹ کے بعد ہم کچھ نہ کچھ کھرچنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسلئے بار بار میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ فی الحال آپ کیا کھرچ رہے ہیں ؟ انکار آپ کر نہیں سکتے۔ دنیا کے چھوٹے بڑے کھوجیوں نے ابجد کے حساب کتاب سے ثابت کردیا ہے کہ آپ ضرورت کے وقت جب چاہیں سانس لینا چھوڑ سکتے ہیں۔ مگر آپ روزانہ کچھ نہ کچھ کھرچنے سے باز نہیں آسکتے۔ آپ قیامت تک کچھ نہ کچھ کھرچتے رہیں گے۔
کھرچنے کی عادت کو مستحکم بنائے رکھنے کے لئے اشتہاری اداروں نے کمال کی حکمت عملی ضدی قوم کے سپرد کردی ہے۔ ضدی قوم ناشتہ بعد میں کرتی ہے، پہلے کچھ نہ کچھ کھرچنے بیٹھ جاتی ہے۔ ضدی قوم کے ہونہار بچے پھجے کے پائے بڑے شوق سے کھاتےتھے۔ اب ان کو کچھ نہ کچھ کھرچنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ صبح سویرے جاگنے کے بعد وہ لوگ سب سے پہلے کچھ نہ کچھ کھرچنے کیلئے بیٹھ جاتے ہیں، اسکے بعد پھجے کے پائے کھاتے ہیں۔ ایک نہیں، انیک اخباروں کے پہلے صفحے پر کچھ نہ کچھ کھرچنے کیلئے ان کو مل جاتا ہے۔ ایک درست لفظ تلاش کرنے کیلئے ان کو درجنوں اخباروں کے پہلے صفحے پر ایک سطر کھرچنی پڑتی ہے۔ مثلاً آج پھجے کے پائے … ہونگے۔ دی گئی سطر کھرچ کر آپ کو درست لفظ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً آج ’’پھجے کے پائے چٹ پٹے ہونگے‘‘۔ ’’آج پھجے کے پائے پھیکے ہوں گے‘‘۔ ’’آج پھجے کے پائے مزیدار ہوں گے‘‘۔
کھرچنے والا مواد بڑے کائیاں قسم کے لوگ بناتے ہیں۔ وہ حالات حاضرہ کو مد نظر رکھ کر کھرچنے کے لائق مواد بناتے ہیں۔ مثلاً، جنگ و جدل کے باوجود ملک میں کرکٹ کی آگ لگی ہوئی ہے۔ کرکٹ اسٹیڈیم دیکھنے والے تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ کھرچ کر دیکھنے والے مواد میں آپ کو ایک لفظ تلاش کرنا پڑتا ہے ۔ مثلاً بنگلہ دیش کے خلاف میچوں میں بابر اعظم کو ’’کھلایا جائے گا؟‘‘ ’’نہیں کھلایا جائیگا؟‘‘ ’’بابر اعظم بارہواں کھلاڑی ہوگا؟‘‘
ملک بھر میں کھرچنے والوں کی دھوم لگ جاتی ہے۔ تحقیقاتی ادارے بتاتے ہیں کہ جس روز اخباروں اور رسالوں میں کھرچنے والا مواد شائع ہوتا ہے، اس روز پڑھنے والے اخباروں میں سب سے پہلے کھرچنے کے لائق مواد کھرچنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اہم ترین خبریں پڑھتے ہیں۔
پچھلے دونوں جنگ و جدل کے دوران ایک کھرچنے والی خبر چلتی تھی جو کچھ اس نوعیت کی تھی۔ مثال:ہندوستان کیخلاف 1965ء والی جنگ میں ایم ایم عالم نے ڈاگ فائٹ کرتے ہوئے ہندوستان کے سترہ، دس ، یا سات ہائی جہاز گرائے تھے۔ کھرچنے والے مواد سے آپ کو درست جواب تجویز کرنا تھا۔
حالات حاضرہ کے حوالے سے آج کل ایک خبر گرما گرم خبر بناکر پڑھنے والوں کو دی جارہی ہے۔ لگتا ہے جیسے ذوالفقار علی بھٹو دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کے لئے ایک وفد لیکر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور بلجیم جارہے ہیں۔ در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس وفد کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول زرداری ہوں گے۔ وہ وفد کی سربراہی بلاول بھٹو زرداری کے نام سے کریں گے۔ اخبار اور رسالے والے ایسی کھرچنے والی خبر کو نظرانداز نہیں کرتے۔ کھرچنے والی خبر کھرچنے کے بعد کچھ اس نوعیت کا مواد آپ کو پڑھنے کیلئے ملتا ہے ۔ ’’وفد کے اخراجات ملک کے چیدہ چیدہ ساہوکار برداشت کرینگے‘‘۔ ’’وفد بیرون ملک دورے کے دوران پانچ یا سات اسٹار ہوٹلوں میں نہیں ٹھہرے گا‘‘۔ ’’وفد امریکہ، برطانیہ، فرانس اور بلجیم میں اپنے ملک کی ایمبیسیز میں ٹھہرے گا۔‘‘
’’بیرون ملک دورے کے دوران وفد اپنے اور اپنے اسٹاف کے اخراجات خود برداشت کرے گا۔ حکومت پاکستان پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالے گا‘‘۔
کیاآپ بھی اسی نوعیت کی خبر کھرچ کر پڑھ رہے ہیں۔