• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت مدت بعد اُس لڑکی کو سلامتی کونسل میں بولتے ہوئے سنا، خوشی سے آنکھیں چھلک پڑیں۔ وہ لڑکی صائمہ سلیم، جس نے خود کو نابینا کبھی نہیں سمجھایا سوچا۔ فارن سروس میں منتخب ہوئی تو ویمن کمیشن کی ایک میٹنگ میں آئی اور بول کر سب چہروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں اس سے پہلےبھی ملی تھی۔ وہ صائمہ سلیم ہے جس کی آواز میں وہ اعتماد تھا کہ پورے ہال میںہر شخص، ہر ممبر اسکے بولنے، بریل پر چلتے ہاتھوں کو دیکھ کر مبہوت تھا۔ صفحہ پلٹا، سامنے کانز فلم فیسٹیول میں ایران کے موجود ہ حالات کی ایک مختصر سی تصویر کو فلم میں ڈھال کر، جعفر پناہی ایرانی فلم کا بہترین انعام لیتے ہوئے ،اپنے ملک کے دوستوں کو تلاش کر رہا تھا۔ وہ تو ایسی فلمیں بنانے کی سزا پر ملک بدر، کیمرہ لیے گھومتے ہوئے ’’یہ تو بس ایک حادثہ‘‘ نامی فلم بنا رہا تھا۔

صفحہ پلٹا سامنے ایران کا کتاب میلہ تھا۔ پاکستان سے (ذاتی طور) ڈاکٹر زاہد منیر عامرموجود تھے۔ پاکستان کےا سٹال کی جگہ تھی جہاں آٹھ دس کتابیں، بلا کسی ترتیب و تزئین کے رلتی ہوئی نوحہ کناں تھیں۔ سفارتخانے سے پوچھا، انہوں نے بتایا کہ نیشنل بک سینٹر نے یہی چند خطوط ارسال کئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے شاعر فروغ فرخ زاد سے استاد حافظ سے لیکر رومی اور فیض کتابیں ڈھونڈتے ہوئے محسوس ہوئے۔

صفحہ پلٹا، اسلام آباد میں پی این سی اے کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس جاری تھا۔ حسب روایت، تمام فنی علوم کو فروغ دینے اور تربیتی مراکز قائم کرنے اور دنیا بھر میں منعقد ہونیوالے میلوں میں شرکت اور نئے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے پر زور دیا گیا۔ مجھے دو دن پہلے پاکستان زندہ باد، جلسہ یاد آیا جس میں، پرانے قومی نغمے کچھ نئے اور کچھ بھولے ہوئے مگر زندہ فنکاروں نے پیش کئے۔ ان میں وہ جذبہ تلاش کرتی رہی جو نسیم بیگم کی آواز اے راہِ حق… شوکت علی، ’’جاگ اُٹھا ہے سارا وطن‘‘ اور پھر ملکۂ ترنم نور جہاں ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘۔ یہ سب سنکر یقین ہوگیا کہ ٹی وی ہو کہ ریڈیویا پی این سی اے، نئے فنکاروں کو تربیت دینے کے درس بھول گئے ہیں۔ اب مہدی حسن تو کجا ایک بھی مردانہ آواز، سرسنگیت سے نہیں تھی۔

صفحہ پلٹا، یہ تو ڈیڑ ھ سال سے میں دیکھ رہی ہوں۔ ٹرمپ صاحب جانتے ہیں کہ نیتن یاہو، صلح نامے کو نہیں مان رہا۔ دو ماہ بعد سینکڑوں کھانے کے ٹرک غزہ میں داخل نہیں ہونے دے رہا۔ ٹرمپ کو یوکرین کا مسئلہ حل کرنا بہت یاد ہے۔ فلسطینیوں کا تو انہوں نے ایک دفعہ بھی نام نہیں لیا البتہ کشمیر کے مسئلے پر بھی منہ زبانی سو سال پرانی باتیں دہرائی جارہی ہیں اور جو بھارتی میڈیا والے، ساری دنیا کو دکھا رہےتھے کہ لاہور فال ہو گیا۔ اسلام آباد فال ہو گیا، کراچی فال ہو گیا، ایسے دروغ گو لوگوں کو کیا سزائیں دی گئیں کہ ابھی تک انڈین میڈیا سچ بولنے، سچ سنانے اور دکھانے کو تیار نہیں ہے۔

صفحہ پلٹاخضدار میں اسکول کے بچوں کی جلی ہوئی بس سامنے تھی۔ پھر پشاور کا زخم تازہ ہو گیا۔ یہ فرعونی دہشت گرد، ابھی تک مکھیوں کی طرح بھنک رہے ہیں۔ خدا کرے فیلڈ مارشل صاحب کی سربراہی میں یہ فتنہ زندہ درگور ہو اور حسبِ وعدہ عوام کی بھلائی کے اقدامات پر بھی توجہ ہو۔صفحہ پلٹا تو پڑھنے کو ملا کہ پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان معاہدہ ہوا ہے کہ’’سی پیک‘‘ میں افغانستان کو بھی شامل کیا جائے۔ اس طرح سینٹرل ایشیا تک مواصلات کا راستہ ہموار ہو گا۔ بقول شخصے یہ وہی سینٹرل ایشین ممالک کہ جب آزاد ہوئے اور ہمارے ملک سے قرآن شریف بھیجے جا رہے تھے تو انہوں نے جواباً کہا تھا قرآن پاک تو ہماری طرف سےآپ کے ملک گیا تھا۔ آپ صنعتی رشتوں کو فروغ دیں۔ آج ہم ان ملکوں سے گیس لینے کے متمنی ہیں۔ ثالثی کا کام بھی چین کرئیگا۔

صفحہ پلٹا تو سامنے کنڑ زبان کی بانو قیوم کی لکھی ہوئی کہانیوں کو انگریزی میں ترجمے پر ’’بکرس ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا تھا۔ پچھلے دو برس ہوئے کہ گیتا نجلی کے ترجمے پر ایوارڈ ملا تھا۔ شاید ہمارے سفارتخانے اور پاکستان میں موجود ادارے، اگر آپس میں اشتراک سے، زبردست فیض، زبردست انتظار حسین اور زبردست فہمیدہ ریاض کے تراجم بھی کروائیں کہ بکرس انعام کے علاوہ دنیا بھر میں ادب کے بہت سے انعامات دیئے جاتے ہیں۔ ہمارے سفارتخانوں نے اور فارن آفس نے فوجی اور جنگی سامان کے علاوہ کچھ نہیں سوچا۔ آسکر ایوارڈ کیلئے جن ممالک سے کتابیں انتخاب کیلئے بھیجی جاتی ہیں۔ ان کا ہر سفارتخانہ، پبلک ریلیشننگ کے ذریعہ اپنے ملک سے شامل کتاب کیلئے ہر ممکن آسکر ایوارڈ ممبران تک سفارش تو کرنے پر پابندی ہے مگر اپنے طور پر اپنے ملک کے ادب کی تشہیر کرنے کی حد درجہ کوشش کرتے ہیں۔ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ جنوبی کوریا کی اوسط درجے کی مصنفہ کو آسکرایوارڈ مل جاتا ہے۔

اب تھک کر سامنے عینی آپا کےخطوط کی کتاب کھولی جو خالد حسن کے نام ہیں۔ اس میں عینی آپا نے بتایا کہ اگلے دو تین مہینے تو کچھ ملکوں میں ادب فیسٹیول میں جانے کیلئے مصروف ہوں۔ عینی آپا، انڈیا کی نمائندہ بن کر جاتی تھیں۔ ویسے پاکستان سے اچھے زمانوں میں کبھی انتظار حسین، خالدہ حسین اور ڈاکٹر آصف فرخی کو بھیجا گیا تھا۔ نثار عزیز بٹ نے بھی اور احمد فراز کے علاوہ، کئی جگہ میں نے بھی نمائندگی کی۔ اب سناٹا کیوں ہے۔ اب تو ڈاکٹر نجیبہ عارف حکومت کو ہلانے کی کوشش کرکے، اچھی ادیبہ اچھے ادیبوں کے تراجم کروا کے دنیا بھر میں بھجوائیں۔ ادب ہی تو تہذیب کا نمائندہ ہوتا ہے۔ دنیا کے لوگ مصر اور ترکی کو آسکر ادب کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔

تازہ ترین