’’اور تیار رکھو ان کے مقابلے (کیلئے) اپنی استطاعت کی حد تک اور بندھے ہوئے گھوڑے (تاکہ) تم اس سے اللّٰہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو اور کچھ دوسروں کو (بھی) جو ان کے علاوہ ہیں تم انہیں نہیں جانتے اللّٰہ انہیں جانتا ہے۔سورۃ انفَال 8:60۔ پاکستان مئی 1998میں چھ جوہری دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں جوہری طاقت اور واحد اسلامی ریاست بن کر دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح چب گیا۔ پھر تو معاشی، عسکری اور ہر قسم کی بین الاقوامی پابندیوں کا نہ ختم ہونے والا سیلِ رواں اس پر چھوڑ دیا گیاجبکہ پوری قوم اپنی بقاء اور دفاع کے حوالے سے بے حد حساس ہے ۔ ہماری جوہری صلاحیت کا سہرا سیاستدانوں، سائنس دانوں اور افواجِ پاکستان کے سر تو باندھا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس کا اصل سہرا پوری قوم کے سر جاتا ہے جس نے سالہا سال بِنا اُف کیے بین الاقوامی پابندیاں جھیلیں۔ ہندوستان نے 11اور13مئی 1998کو پانچ جوہری دھماکے کیے تو ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کو سخت تنبیہ کی کہ وہ اپنا رویہ درست کرے وگرنہ اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا خصوصاً کشمیر کے حوالے سے تو پوری قوم یک زبان، یکجان اور یک قلب ہو کر جوابی جوہری دھماکوں کا مطالبہ کرنے لگی۔ لوگ جلوسوں اور ریلیوں کی صورت میں نکلتے اور حکومتِ وقت سے جوابی جوہری دھماکوں کا مطالبہ کرتے ۔ 28 مئی تک پورے ملک کا ماحول اس حد تک گرم ہو چکا تھا کہ حکومت ِوقت کے لیے اتنا دباؤ برداشت کرنا ممکن نہ رہا جبکہ امریکہ کی جانب سے دھماکے نہ کرنے کے لئے بھی بے انتہا دباؤ ،مالی منفعت اور سیاسی استحکام جیسی ترغیبیں بھی دی گئیں ۔تاہم جب بھی حکومتوں پر بیرونی دباؤ کے مقابلے میں اندرونی دباؤ بڑھتا ہے وہ لا محالہ اندرونی دباؤ کے آگے جھک جاتی ہیں۔ بالآخر 28 مئی کے روز قومی امنگوں کے مطابق پاکستان نے ہندوستان کے پانچ جوہری دھماکوں کے جواب میں چھ جوہری دھماکوں سے ہندوستان کو کرارا جواب دے دیا۔اگلے روز ایک اخبار میں شہ سرخی لگی" واجپائی ہن آرام اے" یعنی واجپائی اب تمہیں آرام آگیا ہے۔ ہندوستانی جوہری دھماکوں کے بعد کے دو ہفتے قوم نے جس کرب میں گزارے وہ بیان سے باہر ہے۔ قوم کی خوشی کو پابندیوں سے ماند کرنے کی سب کوششیں رائیگاں گئیں کہ سلام ہے پاکستانیوں کے جذبۂ حب الوطنی، بقاء و سلامتی کے حوالے سے فہم کو کہ پابندیوں کے سامنے جھکے نہیں نہ متزلزل ہوئے۔ کمال تو یہ ہے کہ ہماری جوہری صلاحیت کے حوالے سے آج تک سارے معاملات انتہائی خفیہ رکھے گئے لیکن اپنے اداروں پر قوم کا بھرپور اعتماد ہے اس لئے وہ آج تک اسکے لئےمسلسل قربانیاں دیتی آئی ہے اور دیتی رہے گی۔
حالیہ ہندوستان پاکستان جنگ نے ثابت کر دیا کہ دشمن اپنے مزموم ارادوں سے باز نہ آئے گا اور جب بھی موقع ملے گا کاری وار کرے گا۔77سالہ تاریخ میں قوم بارہا اس تجربے سے گزری ہے کہ مختلف حکومتوں نے ہندوستان سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات معمول پر لانے کی لا تعداد کوششیں کیں۔کبھی آؤٹ آف باکس سلوشن (حل) تلاش کیے گئے تو کبھی کشمیر پر باڑ لگا کرکشمیریوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ دو طرفہ مزاکرات سے یعنی شملہ معاہدے سے مسائل حل کرنے کا ناکام تجربہ بھی ہوچکا جس کی ہندوستان نے ہر شق کی عملاً خلاف ورزی کی ہے۔ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا تجربہ جو عمران خان حکومت میں بڑی دھوم دھام سے سامنے لائی گئی تھی میں ہندوستان سے سو سال تک جنگ نہ کرنے کا اعادہ اور ہر حالت میں ہمسایہ سے معاشی تعلقات بڑھانے پر زور تھا بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔یہ پالیسی اس وقت کے مشیر ِدفاع معید یوسف کی تخلیق کردہ تھی جو امریکی سی آئی اے کے فنڈ سے چلنے والے ادارے سےلمبی چھٹی دلوا کر ہم پر مسلط کیے گئے تھے۔ قوم کوپاکستان اور اس کے وجود کے خلاف ہونیوالی سازشوں کا روزِ اول ہی سے ادراک ہے لیکن ہماری حکومتیں اپنی مصلحتوں اور اپنی حکومتوں کے دوام کیلئے بنیادی قومی مفادات و اصولوں سے رو گردانی کرنے تک سے گریز نہیں
کرتیں۔ہندوستان اور پاکستان کے حالات انتہائی کشیدہ ہیں، پاکستان سے بدترین شکست کھانے کے بعد ہندوستان ایک زخمی درندے کی مانند اپنے زخم چاٹ رہا ہے اور موقع پا کر پاکستان پر دوبارہ حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔اسی لئے ہندوستان نے بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ ہندوستان کی 18لاکھ فوج کے مقابلے میں پاکستان کی6لاکھ فوج ہے۔یہ تناسب1:3کا ہے جو پاکستان نے ہندوستان کے خطرے سے نمٹنے کے لئے شروع سےطے کیا ہے یعنی انکے 3کے مقابلے میں ہمارا ایک فوجی جوان۔اس تناسب سے ہندوستان جو سالانہ 70سے 80ارب ڈالر اپنے دفاع پر لگاتا ہے ہمارا دفاعی بجٹ 23سے 26 ارب ڈالر ہونا چاہئے جبکہ ہماری افواج کا کل بجٹ11ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ اس پر بھی ناقدین طعن وتشن کے تیر چلاتے رہتے ہیں ۔ ہندوستان نے جان بوجھ کر ہمارا پانی بند کیا ہے تاکہ خشک سالی اور قحط کے خوف سے پاکستان گھٹنے ٹیک دے یا جنگ میں پہل کرے تاکہ ہندوستان جنگ کو پاکستان کے متنازعہ علاقوں سے نکال کر ملک کے طول وعرض میں پھیلا سکے۔7مئی کو ہندوستان نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملہ کیا تھا جس کیلئے پاکستان کو اپنا کیس اقوامِ متحدہ میں لے جانا چاہیے۔ ہندوستان کا بِلا ثبوت پہلگام واقعے کے 24گھنٹے کے اندر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا بھی ہندوستانی جارحیت کی پیش بندی اور آبی جارحیت کی سازش ہے۔ پاکستان کواب مزید تحمل و برداشت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس آبی جارحیت کا ایسا منہ توڑ جواب دینا چاہیے کہ دشمن سو سال تک پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرآت نہ کرے۔ حکومت کوچاہئے کہ قوم کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے سول ڈیفنس تربیت،جنگی مشقیں اور تیاری کرائے۔ تمام صحت مند اور جوان شہریوں کو چند ماہ کی لازمی سروس کے ذریعے تربیت دینے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ حالات بتا رہے ہیں کہ یہ جنگ تا دیر چلے گی۔ کلاس میں اوّل آنا آسان ہوتا ہے لیکن اوّل پوزیشن قائم رکھنا انتہائی مشکل! پاکستان نے ہندوستان سے جنگ جیتی ہے لیکن فتح برقرار رکھنے کیلئے قوم کی ذمہ داری ہے کہ افواجِ پاکستان کی بھرپور سپورٹ کرے تاکہ مستقبل میں ہونے والے معرکوں میں بھی وہ سرخرو ہوں۔
؎تو ہے فاتحِ عالمِ خوب و زِشت
تجھے کیا بتاؤں تری سرنوِشت